امریکہ کے بے بنیاد دعوے کے خلاف ایران کا رد عمل
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کےترجمان صادق حسین جابری انصاری نے دہشت گردی کے حامی ممالک کی فہرست میں ایران کا نام شامل کئےجانے پر مبنی امریکہ کے حالیہ اقدام کے خلاف رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے۔
اس بیان میں آیا ہےکہ دہشت گردی کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ کی حالیہ سالانہ رپورٹ میں ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا بے بنیاد الزام لگا کر واضح حقیقت کا مذاق اڑایا گیا ہے اور یہ بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹوں کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہے۔
امریکہ دہشت گردی کی تعریف اپنے سیاسی اہداف کو مدنظر رکھ کر کرتا ہے۔ اس تعریف کے مطابق قبضے کی شکار اقوام کی قبضے کے خاتمے اور آزادی و خود مختاری کے حصول کے مقصد سے کی جانے والی قانونی اور جائز جد و جہد کو دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کے نزدیک فلسطینی سرزمین پر قبضہ جمانے والے صیہونی دشمن کے خلاف فلسطینی گروہوں کی استقامت ایک دہشت گردانہ اقدام ہے اور اسی بنا پر صیہونی جارحیت کے مقابلے میں ان گروہوں کی ایران کی جانب سے حمایت کئے جانے کو دہشت گردی کی حمایت گردانا جاتا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب امریکہ نے ریاستی دہشت گردی کے سب سے بڑے حامی کے طور پر کئی عشروں سے صیہونی حکومت کی غیر مشروط حمایت کر کے مقبوضہ فلسطینی سرزمین کے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم اور ان پر مسلسل خوف و ہراس کی زندگی مسلط کر رکھی ہے۔
امریکہ نے صرف دہشت گردی ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کے مسئلے میں بھی دہری پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
حقیقت یہ ہےکہ دہشت گردی کے مقابلے سے متعلق مغرب کا دعوی ایک کھوکھلا دعوی ہے کیونکہ امریکہ اور مغرب نے القاعدہ، داعش اور ان جیسے دوسرے دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے میں کردار ادا کیا ہے اور اپنے ناجائز مفادات کے حصول کے لئے ان کی حمایت کی ہے۔
درحقیقت دہشت گردی کے سلسلے میں امریکہ کا دہرا ، ریاکارانہ اور تشہیراتی رویہ خطے اور دنیا میں دہشت گردی کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب ہے۔
امریکہ نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کی حمایت کر کے اور سعودی عرب اور اس کے دوسرے اتحادیوں کی جانب سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کی لعنت کی وسیع پیمانے پر مالی اور سیاسی حمایت کو نظر انداز کر کے یمن سے لے کر لیبیا تک کی مسلم اقوام کے کئی ملین افراد کو دکھ ، تکلیف، خوف و ہراس اور بے گھر ہونے جیسی مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے گزشتہ برس مغربی جوانوں کے نام اپنے دوسرے خط میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے پھیلاؤ کے اصلی سبب کے طور پر اس رویئے کی وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی دہشت گردی کی حمایت کو مغربی پالیسیوں میں واضح تضاد قرار دیا اور یہ سوال اٹھایا کہ ظالم صیہونی حکومت کے اثر و رسوخ رکھنے والے اتحادیوں یا ظاہری طور پر آزاد و خود مختار بین الاقوامی اداروں کی جانب سے اس حکومت کی اب تک سنجیدہ اور موثر طور پر مذمت کیوں نہیں کی گئی ہے؟
امریکہ دہشت گردی کےخلاف جنگ کے نام پر خطے میں تین بنیادی اہداف حاصل کرنے کے درپے ہے۔ اس کا پہلا ہدف خطے میں بحران پیدا کرنا ہے جس میں دہشت گردی کےمقابلےکے بہانے شدت آئی ہے۔ دوسرا ہدف اسرائیل کو شلٹر فراہم کرنےکے لئے ایرانوفوبیا کا دائرہ کار بڑھانا ہے۔
حقیقت یہ ہےکہ دہشت گردی کے مقابلے کے سلسلے میں امریکہ کے لئے جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ صیہونی حکومت کے تحفظ اور شام، لبنان اور فلسطین میں استقامتی گروہوں کو کمزور کرنے سے عبارت ہے۔
خطے کی تقسیم کے منصوبے یا دوسرے لفظوں میں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے کئی برس قبل پیش کئے جانے والے عظیم مشرق وسطی کے منصوبے پر عملدرآمد وہ تیسرا ہدف ہے جسے امریکہ حاصل کرنے کے درپےہے۔ البتہ ان اہداف کے حصول میں ترکی، سعودی عرب اور قطر جیسے علاقائی ممالک نے عراق اور شام میں داعش کی حمایت کے ذریعے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
جیسا کہ ایران کی وزارت خارجہ کے بیان میں اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ امریکہ اپنی اس کارکردگی کے ساتھ نہ تو اپنی ذمےداری سے سبکدوش ہوسکتا ہے اور نہ ہی دوسری اقوام اور حکومتوں پر دہشت گردی کا الزام لگا سکتا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب ایران کے سترہ ہزار افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں اور ایران ان ممالک میں شامل ہے جن کو ایسے دہشت گرد گروہوں کے اقدامات کا سامنا ہے جنہیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔