قدس میں اسرائیل کے تسلط پسندانہ اقدامات کا نیا دور
صیہونیوں نے مسجد الاقصی پر وسیع اور اجتماعی حملے کا مطالبہ کیا ہے۔
صیہونی انتہا پسندوں نے چند ہفتے قبل سوشل میڈیا پر اتوار پانچ جون کو مسجد الاقصی پر اجتماعی حملے میں وسیع شرکت کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ پانچ جون سنہ انیس سو سڑسٹھ کو غاصب اسرائیلی فوجیوں نے مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کرلیا تھا اور آج اس قبضے کو انچاس برس مکمل ہوگئے ہیں۔
اسی تناظر میں صیہونی کابینہ نے قدس پر قبضے کو انچاس برس پورے ہونےکے موقع پر صیہونی بستیوں میں توسیع اور بیت المقدس کو یہودی رنگ میں رنگنے کے لئے دو سو بیس ملین ڈالر مختص کرنے کی خبر دی ہے۔
صیہونی حکومت نے سنہ انیس سو اڑتالیس میں مشرقی بیت المقدس سمیت فلسطین کے بعض علاقوں پر قبضہ کر کے مغربی حکومتوں خصوصا برطانیہ کی حمایت اور سازش کے تحت خطے میں اپنی ناجائز اور جعلی حکومت کا اعلان کیا اور اس کے بعد سنہ انیس سو اڑسٹھ میں اس نے خطے میں چھ روزہ جنگ کی آگ بھڑکا دی۔
اس چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں فلسطینی سرزمین کے بعض دوسرے علاقوں نیز بعض عرب سرزمینوں منجملہ مشرقی بیت المقدس ، غزہ پٹی اور مغربی کنارے نیز مصر کے صحرائے سینا اور شام کی جولان پہاڑیوں پر صیہونی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔
صیہونی حکومت کے تسلط پسندانہ اقدامات ان غاصبانہ اور سازش پر مبنی اقدامات تک محدود نہیں ہیں بلکہ صیہونی حکومت کی پارلیمنٹ نے سنہ انیس سو اسّی میں بیت المقدس کو مقبوضہ فلسطین میں شامل کرنے سے متعلق ایک بل منظور کر کے اس فلسطینی شہر کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت قرار دیا اور مختلف ممالک سے کہا کہ وہ مقبوضہ فلسطین میں اپنے سفارت خانے تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کریں۔ رائے عامہ نے اس کی شدید مخالفت کی اور یہ اعتراض اس حد تک شدید تھا کہ حتی بہت سی مغربی حکومتوں اور امریکہ نے عملی طور پر مقبوضہ فلسطین میں اپنے سفارت خانے تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب سنہ انیس سو اڑتالیس سے سنہ انیس سو سڑسٹھ تک کے برسوں کے دوران صیہونی حکومت نے پارلیمنٹ کی عمارت ، میوزیم اور وزیراعظم ہاوس کو مغربی بیت المقدس میں منتقل کر دیا تھا۔
صیہونی حکومت کے گستاخانہ اقدامات بیت المقدس میں اس حکومت کے توسیع پسندانہ اور تباہی و بربادی پھیلانے والے اقدامات تک محدود نہیں ہیں بلکہ بیت المقدس کے اسلامی مقامات خصوصا مسجد الاقصی کی بھی صیہونی حکومت نے بے حرمتی کی ہے اور حالیہ برسوں کے دوران اس بے حرمتی میں شدت پیدا ہوئی ہے۔
مسجد الاقصی میں اشتعال انگیزی کے ساتھ صیہونیوں کے داخلے، مسلمانوں کے اس مقدس مقام سے متعلق تباہ کن اقدامات کا سلسلہ جاری رکھنے اور ان اقدامات کے خلاف فلسطینیوں کے رد عمل سے ان اشتعال انگیز اقدامات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو سنہ دو ہزار میں اس وقت کے صیہونی وزیراعظم ایریل شیرون نے انجام دیئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں مسجد الاقصی کی بے حرمتی پر مبنی ایریل شیرون کے اقدامات کی بنا پر اس حکومت کے خلاف عوامی اعتراض میں شدت پیدا ہوئی اور انتفاضہ تحریک ایک نئے مرحلے یعنی انتفاضہ الاقصی میں داخل ہوگئی۔ جس کی وجہ سے یہ حکومت پہلے سے زیادہ کمزور اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔
فلسطینیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اسلامی مقدسات کے خلاف صیہونی حکومت کے اقدامات کو برداشت نہیں کریں گے۔ حالیہ مہینوں کے دوران قدس کی حمایت میں صیہونیت مخالف اعتراضات میں آنے والے شدت سے بھی ، کہ جسے فلسطینی حلقوں نے انتفاضہ قدس جدید یا انتفاضہ سوم کا نام دیا ہے، اسی حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب عالمی سطح پر قدس کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس سلسلے میں حال ہی میں یونسکو نے بھی باضابطہ طور پر قدس اور اس کی تاریخی میراث کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔