دہشتگردوں کے لئے سعودی امداد
عراق نے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے لئے سعودی عرب کی طرف سے مالی امداد جمع کرنے پر احتجاج کیا ہے۔
عراق کی وزارت خارجہ نے سعودی عرب میں بعض گروہوں کی جانب سے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے لئے مالی مدد جمع کرنے اور سعودی عرب کی وزارت داخلہ کا یہ اعلان کہ وہ اس مسئلے سے آگاہ ہے احتجاج کیا ہے اور سعودی عرب کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس طرح کے اشتعال انگیز اقدامات کے بارے میں وضاحت پیش کرے۔
عراق کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں سعودی عرب کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ عراقی عوامی رضا کار فورسز کے بارے میں جوکہ عراقی فوج کا ایک حصہ ہے نازیبا بیانات دینا ختم کرے۔
عراقی وزارت خارجہ کے بیان میں آیا ہے کہ سعودی عرب سے داعش کے لئے مالی امداد کاجمع کیا جانا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا تھا کہ سعودی حکومت داعش کے لئے عوامی مدد جمع کرنے کا مقابلہ کرنے کی توانائی نہیں رکھتی کیونکہ یہ بات عوام کے جذبات سے تعلق رکھتی ہے۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے ترجمان منصورالترکی نے بھی کہا تھا کہ فلوجہ کو آزاد کرانے میں عراق کی عوامی فورسز کی شرکت اس بات کا سبب بنی ہےکہ سعودی عرب کے عوام داعش کے لئے مالی امداد جمع کریں۔
واضح رہے عراق کے دشمن منجملہ سعودی عرب یہ کوشش کررہے ہیں کہ تفرقہ انگیز پالیسیوں کے ذریعے عراق کی عوامی فورسز کو ایران سے وابستہ قراردیں۔ سعودی عرب کے ذرائع ابلاغ نے فلوجہ میں عراق کی عوامی فورسز کو بہانہ بنا کر فلوجہ کی آزادی کی جنگ کو شیعہ اور سنی جنگ ظاہرکرنے کا پروپگنڈا شروع کررکھا ہے اور فلوجہ کے سنی عوام کی مدد کے بہانے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کی مدد کررہے ہیں۔
عراقی پارلیمنٹ کے رکن نے بھی بغداد میں سعودی عرب کے سفیر کے بیان کو عراق کے داخلی امور میں مداخلت قرار دیا ہے۔ موفق الربیعی نے جو عراق کے قومی سلامتی کے مشیر بھی رہ چکے ہیں کہا ہے کہ فلوجہ کو آزاد کرانے کی کارروائیاں پروگرام کے مطابق جاری ہیں اور سعودی عرب کے سفیر کے بیانات ہمیشہ سے اشتعال انگیز رہے ہیں۔
الربیعی نے کہا کہ جب تک وہابی فکر کو رواج دینے والے موجود رہیں گے اور دہشتگردی کو لاجسیٹک اور مالی مدد ملتی رہے گی دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
ادھر صوبہ صلاح الدین اور الانبار میں عوامی فورسز کی کامیابیوں اور داعش کے قبضے سے متعدد علاقوں کو آزاد کرانے کےبعد بعض عرب ملکوں کے ذرائع ابلاغ بالخصوص خلیج فارس کے عرب ملکوں کے ذرایع ابلاغ نے عراق کی عوامی فورسز کی شبیہ بگاڑنے کے لئے منفی پروپگینڈا شروع کر رکھا ہے۔
یہ ایسے عالم میں ہے کہ ترکی کی مداخلت پسندانہ کارروائیاں اورعراق کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی پر بھی عراقی حکام اورعوام نے شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔ اس سلسلے میں عراقی پارلیمنٹ میں صوبہ نینوا کے رکن نے صوبہ نینوا میں ترکی کی افواج کی موجودگی کی مذمت کی ہے۔
عبدالرحمان اللویزی نے المعلومۃ نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے بعشقیہ علاقے میں ترک افواج کے موجود رہنے کی بابت خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترک افواج کا موجود رہنا داعش کی موجودگی سے زیادہ خطرناک ہے۔
بعشقیہ علاقہ عراق کے شمالی شہر موصل کے قریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ فرقہ پرست عناصر کو جوعراق کی عوامی فورسز کو ھدف تنقید بناتے ہیں انہیں صوبہ نینوا کے بعض علاقوں میں ترک فوج کی موجودگی جو ایک طرح کی جارحیت ہے اس پراعتراض کرنا چاہیے۔
واضح رہے ترک فوج کے دسیوں فوجی دسمبر دوہزار پندرہ میں کرد پیشمرگہ فورس کی ٹریننگ کے بہانے شہر موصل کے قریب بعشقیہ علاقے میں گھس آئے تھے۔ عراقی حکومت نے بارہا ترکی کے اس اقدام کو عراق کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی کو مکمل طرح سے انخلا کرنا ہوگا۔