القاعدہ اور طالبان کا گٹھ جوڑ
افغانستان سے موصولہ اطلاعات کے مطابق القاعدہ کے سرغنے ایمن الظواہری نے طالبان کے نئے سرغنے کی بیعت کرلی ہے۔
انتہا پسند گروہوں کی ویب سائٹوں کو مانیٹر کرنے والی امریکی سائیٹ نے کہا ہے کہ القاعدہ کے سرغنے ایمن الظواہری نے طالبان کے نئے سرغنے ملا ہیبت اللہ کی بیعت کرلی ہے۔ امریکہ کے اس مرکز نے اعلان کیا ہے کہ ایمن الظواہری نے چودہ منٹ پر مشتمل اپنے آڈیو پیغام میں جو مختلف ویب سائیٹوں پر نشر ہوا ہے طالبان کے نئے سرغنے ملا ہیبت اللہ کی بیعت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ہیبت اللہ آخوند زادہ کو طالبان کے سابق سرغنے ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد نیا سرغنہ بنایا گیا ہے۔ نوے کی دہائی میں جب کہ طالبان کی حکومت خلیج فارس کے بعض ملکوں جیسے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نیز پاکستان اور امریکہ کے تعاون سے معرض وجود میں آئی تھی تو اس وقت طالبان کے سرغنے ملا عمر تھے، القاعدہ کے سرغنے اسامہ بن لادن سے ان کے اچھے تعلقات تھے۔ البتہ یہ دونوں افراد ہلاک کردئے گئے ہیں۔
اس زمانے میں طالبان کا کہنا تھا کہ چونکہ اسامہ بن لادن ان کے ملک میں مہمان ہے لھذا اسکی حمایت کرنا ضروری ہے۔ یاد رہے امریکہ نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ القاعدہ چونکہ گیارہ ستمبر کے حملوں میں ملوث ہے لھذا اس کے رہنماوں کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کرے اور انہیں ملک سے نکال دے۔ اب جبکہ مغربی حلقوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ القاعدہ کمزور پڑگئی ہے اور افغانستان میں اب اس کا وجود ختم ہونے کے برابر ہے تو القاعدہ کے سرغنے کا طالبان کی بیعت کرنا اور اس کا اعلان مغربی بالخصوص امریکی ذرایع ابلاغ کی جانب سے ہونا قابل غور بات ہے۔
بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ کا تعلق افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے اور ان کے نئے مشن سے ہے۔ القاعدہ جسے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے معرض وجود میں آنے کے بعد دیوار سے لگادیا گیا ہے اب یہ کوشش کررہی ہے کہ طالبان سے بیعت کرکے دوبارہ خود کو بڑا بنا کر پیش کرسکے اور اس طرح دوبارہ اپنے افراد اور مالی حامیوں کو اپنی حمایت کرنے پر مائل کرسکے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے حال ہی میں افغانستان میں امریکی فوجی کمانڈروں کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے انہیں نیا مشن سونپا ہے البتہ اس کے لئے افغانستان میں ایک طاقتور دشمن کے فرض کئے جانے کی ضرورت ہے اور یہ کام طالبان کے ہاتھوں پر القاعدہ کی بیعت کے اعلان اور داعش کی موجودگی سے مکمل ہوجائے گا۔
بعض سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ ایمن الظواہری کو امید ہے کہ وہ طالبان کے سرغنے سے اعلان بیعت کرکے افغانستان میں القاعدہ کے پراکندہ اور طالبان کی پناہ میں موجود جنگجووں کو منظم کرسکیں گے۔
یاد رہے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کے جنگجو شام و عراق میں مختلف دہشتگرد گروہوں میں شامل ہوگئے تھے۔اگرچہ طالبان نے ابھی تک ایمن الظواہری کی بیعت پر ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے تاہم بعض مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان اور القاعدہ الگ الگ اھداف کے حامل ہیں جن کی وجہ سے ان کا آپسی تعاون دشوار ہوجاتا ہے۔ طالبان گروہ بقول خود افغانستان کو امریکہ اور نیٹو کے قبضے سے آزاد کرانا چاہتا ہے جبکہ القاعدہ عالمی سطح پر اپنے دہشتگردانہ اھداف کے درپے ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ممکنہ طور پر طالبان ایمن الظواہری کی بیعت کا خیرمقدم کریں گے لیکن یہ بیعت افغان عوام کے لئے کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتی کیونکہ افغانستان کو اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ امن و امان ہے۔ طالبان کی جانب سے ایمن الظواہری کی بیعت قبول کرنا اس دہشتگرد تنظیم کی حمایت کے معنی میں ہوگا جس سے طالبان کی متزلزل پوزیشن بالخصوص پشتون قوم کے درمیان اس کی ساکھ پر منفی اثرات پڑیں گے۔
اسی کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی باعث بنے گا کہ امریکہ اور نیٹو دہشتگردی سے مقابلے کے بہانے افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد بڑھادیں یہ ایسے عالم میں ہے کہ گذشتہ پندرہ برسوں میں امریکہ اور نیٹو نے افغانستان پر قبضے کے دوران عوام فریبی کےنعرے لگاتے ہوئے نہ صرف افغانستان میں دہشتگردی کی لعنت کو کم کرنے میں کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا ہے بلکہ دہشتگرد گروہ دوبارہ خود کو منظم کررہے ہیں۔