ہندوستان اور افغانستان کے باہمی تعاون میں توسیع
ہندوستانی وزیر خارجہ سشماسوراج نے کہا ہے کہ نئی دہلی افغانستان کو سیکورٹی اور اقتصادی آسائش کے سلسلے میں مدد دینے کا پابند ہے۔
سشما سوراج نے نئی دہلی میں افغانستان کے وزیر برائے توانائی و پانی علی احمد عثمانی سے ملاقات میں کہا کہ ہندوستان افغانستان کی اقتصادی ترقی و پیشرفت کے لئے اپنی تمام کوششیں بروئےکار لائے گا۔
افغانستان میں سنہ دو ہزار ایک میں طالبان کی حکومت کے خاتمےکے بعد ہندوستان سمیت علاقائی ممالک افغانستان کی تعمیر نو کے لئے میدان عمل میں اتر پڑے۔ افغانستان جنگ کے زمانے میں ایران، ہندوستان اور روس نے طالبان کے مقابلے کے لئے شمالی اتحاد کی مدد کی۔ اس لئے طالبان کی حکومت کےخاتمے کے بعد ان ممالک نے افغانستان کی تعمیر نو میں مدد دینے کا آغاز کر دیا۔
حال ہی میں ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ہرات میں سلما ڈیم کا افتتاح کیا۔ جس سے نئی دہلی اور کابل کے تعلقات میں توسیع کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ہندوستان ان علاقوں میں اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے میں بہت دلچپسی رکھتا ہے جہاں پاکستان کا اثرو رسوخ ہے اور افغانستان کا شمار بھی ایسے ہی علاقوں میں ہوتا ہے۔
پاکستان ہمیشہ افغانستان کو اپنی جولان گاہ سمجھتا رہاہے لیکن اب افغانستان میں پارلیمنٹ اور حکومت کی تشکیل کے بعد صورتحال بدل گئی ہے اور کابل حکومت ہندوستان سمیت خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے اور متوازن تعلقات قائم کرنے کی خواہاں ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب ہندوستان کا خیال ہےکہ پاکستان افغانستان میں اس کی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ جس چیز نے اسلام آباد کو کابل اور نئی دہلی کے تعلقات کے سلسلے میں تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی نے افغانستان کے صدر اشرف غنی سے ملاقات میں کہا ہے کہ ہندوستان دہشت گردی کے مقابلے کے لئے افغانستان کی مدد کرے گا۔
پاکستان کو یہ تشویش لاحق ہےکہ ہندوستان اور افغانستان کا سیکورٹی تعاون اسلام آباد کے خلاف ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی حکام نے حال ہی میں بارہا ہندوستان کی خفیہ ایجنسی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پاکستان خصوصا صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندی اور فرقہ واریت میں ملوث گروہوں کی مدد کی کوشش کرتی ہے۔
دریں اثناء ہندوستان افغانستان کے ساتھ باہمی تعاون بڑھا کر اس ملک میں اپنی اقتصادی پوزیشن مستحکم کرنے کے درپے ہے۔ اس لئے وہ پاکستانی منڈیوں کے لئے ایک حریف شمار ہوتا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب افغانستان کی منڈیاں روایتی طور پر پاکستان کی منڈیاں شمار ہوتی ہیں اور پاکستان کے لئے یہ چیز قابل قبول نہیں ہے کہ دوسرے ممالک منجملہ ہندوستان ، کہ جو پاکستان کا ایٹمی حریف بھی شمار ہوتا ہے ، افغانستان کی منڈیوں میں اس کی جگہ لے لے۔
ہندوستان کے علاوہ چین بھی افغانستان کی سیاست اور معیشت میں سرگرم ہو گیا ہے اور ایسا نظر آتاہے کہ چین بھی افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے سلسلے میں ہندوستان سے سبقت لے جانے کی کوشش کرے گا ۔
یہ ایسی صورتحال ہے جو پاکستان کے لئے خوش آئند نہیں ہے۔ اسلام آباد کو اب اس حقیقت کا ادراک ہو رہا ہے کہ افغانستان کی صورتحال چین اور ہندوستان جیسے ممالک کے داخلے کی وجہ سے بدل رہی ہے۔ اس لئے افغان حکومت اپنے تجارتی اور اقتصادی شراکت داروں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار کر کے اپنے ملک کی اقتصادی اورتجارتی صورتحال بہتر بنانے کے لئے اس تعاون سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔