بنگلہ دیش میں ریسٹورنٹ پر حملہ
دہشت گرد گروہ داعش نے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک ریسٹورنٹ پر حملہ کرنے اور متعدد افراد کو یرغمال بنانے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے-
فرانس24 ٹی وی چینل نے رپورٹ دی ہے کہ نو افراد پر مشتمل ایک گروہ نے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے سفارتی علاقے میں واقع ایک ریسٹورنٹ پرجمعے کی رات حملہ کر دیا جس کے بعد دہشت گردوں اور سیکورٹی اہلکاروں کے درمیان فائرنگ شروع ہوگئی اور دہشت گردوں نے ریسٹورنٹ میں موجود کچھ لوگوں کو یرغمال بنا لیا-
بعض نیوز ایجنسیوں نے اس جھڑپ میں کئی افراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کی خبردی ہے- اٹلی کی وزارت خارجہ کے ایک ذریعے اور ایک جاپانی عہدیدار نے بھی اعلان کیا ہے کہ یرغمالیوں میں اٹلی اور جاپان کے بھی کچھ شہری ہیں-
اس سے قبل بھی بنگلہ دیش میں دہشت گردانہ حملے ہوچکے ہیں اور ہر بار اگرچہ داعش اور القاعدہ دہشت گرد گروہوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی لیکن بنگلہ دیش کی حکومت نے اپنے ملک میں ان گروہوں کی موجودگی کو مسترد کرتے ہوئے حملہ آوروں کو انتہاپسند اور سیاسی مخالف قرار دیا ہے-
ریسٹورنٹ پر حملے اور افراد کے یرغمال بنائے جانے کے واقعے کے سلسلے میں ڈھاکہ حکومت نے ابھی اپنے موقف کا اعلان نہیں کیا ہے تاہم سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں ابھی حال ہی میں کچھ سلسلہ وار قتل اور ٹارگٹ کلنگ کے بعد کہ جو مندروں میں چند پجاریوں پر حملے کے ساتھ شدت اختیار کر گئی ہے، ایسا نظر آتا ہے کہ بنگلہ دیش میں بدامنی پھیلانے کی کوششیں جاری ہیں اور وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے بھی، کہ جو مخالفین سے کسی بھی طرح مصالحت کے لئے تیار نہیں، تشدد پسندوں کو مخالف پارٹیوں سے وابستہ قرار دے کر بنگلہ دیش کے سیکورٹی مسائل کو چھپانا چاہا ہے-
ابھی حال ہی میں بنگلہ دیش کے سیکورٹی اہلکاروں نے شرپسندوں اور تشددپسندوں کے مقابلے کے لئے تیرہ ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا اور بنگلہ دیش کے انٹیلیجنس ادارے نے دعوی کیا کہ یہ گرفتاریاں ، یونیورسٹی اساتذہ ، سیکولر شخصیتوں اور ہندو مذہبی رہنماؤں جیسے سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں کا قتل عام روکنے کے لئے انجام پائی ہیں تاہم مخالف پارٹیوں کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں سیاسی ہیں اور اکثر مخالف پارٹیوں کے حامیوں اور مقامی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے-
سیاسی سرگرمیوں پر سخت پابندیوں، سب سے بڑی اسلامی پارٹی یعنی جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دیئے جانے اور سیاسی گرفتاریوں کے باعث ملک کی سیکورٹی صورت حال مبہم اور پیچیدہ ہو کر رہ گئی ہے۔ اس ٹارگٹ کلنگ نے کہ جسے ڈھاکہ حکومت ، مخالف پارٹیوں کی طرف منسوب کر رہی ہے ،ثابت کر دیا کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت بنگلہ دیش کے سیاسی و سیکورٹی حقائق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور وہ سیکورٹی مسائل پر پردہ ڈال کر اقتدار کو اپنے ہاتھ میں رکھنا جاہتی ہے-
جبکہ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کی سیاسی و سیکورٹی کارکردگی ایسی ہے کہ جس سے پوری طرح واضح نہیں ہو پا رہا ہے کہ بنگلہ دیش میں کون سے دہشت گرد اور تشدد پسند گروہ قتل اوراغوا کی کارروائیاں کررہے ہیں-
اس بات کے پیش نظر کہ شیخ حسینہ حکومت کے مخالفین بنگلہ دیش کے انٹیلیجنس اداروں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مخالفین کا مقابلہ کرنے کے لئے ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ایسا نظر آتا ہے کہ شیخ حسینہ کو یقین تھا کہ القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہ بنگلہ دیش میں کارروائی کی طاقت و توانائی نہیں رکھتے جبکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ گروہ، بنگلہ دیش کے عوام کی معاشی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور شام و عراق میں اپنی بھاری شکست کے مد نظر بنگلہ دیش سے دہشت گرد بھرتی کرنے اور اپنے اڈوں کو اس ملک میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں-
بہرحال سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش میں دہشت گرد اور تشدد پسند گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لئے قومی اتفاق رائے اور اتحاد کی ضرورت ہے اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اپنے سیاسی موقف میں جس قدر زیادہ لچک پیدا کر کے سیاسی و مذہبی گروہوں کے ساتھ تعاون کریں گی اور سیکورٹی مسائل کو چھپانے کی کوشش نہیں کریں گی اسی قدر اچھی طرح دہشت گرد اور انتہاپسند گروہوں کا مقابلہ کر سکیں گی -