فرانس میں ایک بار پھر داعش کےحملے
فرانس میں ایک بار پھر ایک بڑا دہشتگردانہ حملہ ہوا ہے۔ ایک ٹرک ڈرائیور نے جمعرات چودہ جولائی کو جو فرانس کا قومی دن ہے وحشیانہ حملہ کیا ہے۔
یہ دہشتگردانہ واقعہ فرانس کے ساحلی شہر نیس میں پیش آیا جب لوگ آتش بازی دیکھنے کےلئے سڑک کنارے کھڑے ہوئے تھے تو ٹرک ڈرائیور نے لوگوں کو کچل دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ٹرک ڈرائیور نے لوگوں کو کچلنے کی غرض سے دو کیلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور اس دوران ٹرک کا ڈرائیور عوام پر گولیاں بھی برساتا رہا۔ فرانس کے وزیر داخلہ برنارڈ کازنوو نے اعلان کیا ہے کہ اس حملے میں تقریبا اسی 80 افراد ہلاک اور ایک سو کے قریب زخمی ہوئے ہیں جن میں اٹھارہ کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ پولیس نے ٹرک ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ ٹرک میں سے تیونسی نژاد فرانسیسی شخص کے شناختی کاغذات ملے ہیں۔
تیرہ نومبر دوہزار پندرہ کو فرانس میں دہشتگرانہ حملے اور برسلز میں دوہزار سولہ کے حملوں کے بعد جو داعش دہشتگردگروہ نے انجام دئے تھے نیس شہر کا ٹرک کا یہ حملہ سب سے بھیانک حملہ شمار ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فرانس میں دہشتگردانہ حملوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔
ادھر فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے جمعرات کو ہنگامی حالات کے اختتام کا اعلان کیا تھا لیکن اس نئے دہشتگردانہ حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرانس کے حکام اپنے ملک کے سکیورٹی حالات سے کچھ زیادہ ہی خوش گمانی میں مبتلا تھے۔ نیس میں ٹرک کے حملے کے بعد رپورٹیں مل رہی ہیں کہ فرانس میں ہنگامی حالات کی مدت میں تین ماہ کی توسیع کردی گئی ہے۔
فرانس میں ہونے والے دہشتگردانہ واقعات کو دوہزار پندرہ سے شروع ہونے والے دہشتگردانہ واقعات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نیس میں ٹرک کاحملہ یقینا فرانس ہی نہیں بلکہ پورے یورپ کے سکیورٹی اقدامات پراثر انداز ہوگا اور اسکی وجہ سے بنیادی طور سے یورپ کے موجودہ سکیورٹی معیارات میں کافی تبدیلیاں آجائیں گی۔
فرانس میں جنوری اور نومبر دوہزار پندرہ میں نئے سکیورٹی قوانین وضع کئے گئے تھے ان قوانین میں ایک، دہشتگردی کے ملزمین کو شہریت سے محروم کرنے کا بھی قانون تھا لیکن اس پر شہریوں بالخصوص ڈبل شہریت رکھنے والے افراد کے حقوق کی پامالی کو لے کر شدید احتجاج کیا گیا۔
فرانس میں نئے سکیورٹی قوانین اور ہنگامی حالات میں توسیع نیز دیگر سکیورٹی اقدامات بھی دہشتگردی کو روکنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ یورپ اور خاص طور سے فرانس میں اس طرح کے دہشتگردانہ واقعات کس وجہ سے ہورہے ہیں؟ اس بات کے پیش نظر کہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش نے ٹرک حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے یہ سوال پیش آتا ہے کہ اس گروہ نے دوبارہ کیوں فرانس میں دہشتگردانہ کارروائی کی ہے۔ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش نے اس سے قبل یہ کہا تھا کہ چونکہ فرانس اس کےخلاف عالمی اتحاد میں شامل ہے لھذا اس نے فرانس میں حملے کئے ہیں اور وہ انتقام لینا چاہتا تھا۔ ان حالات کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ فرانس اس وقت وہی کاٹ رہا ہے جو اس نے شام میں بویا تھا۔
دراصل یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ اور فرانس نے جو یورپی یونین کے رکن بھی ہیں امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں نے شام میں تکفیری دہشتگرد گروہوں خاص طور سے داعش کو جنم دینے اور انہیں پروان چڑھانے اور مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مغربی ممالک کے اس منفی اقدام کا پہلا نتیجہ یورپ میں دو طرح سے سامنے آیا۔ پہلی صورت یہ تھی کہ دسیوں ہزار پناہ گزین یورپ کی طرف روانہ ہوگئے اور دوسری صورت یہ ہے کہ یورپ کے تکفیری عناصر کے اپنے وطن واپس آنے سے یورپ میں بھرپور طرح سے دہشتگردی بھی پھیل گئی۔
یورپی ممالک بالخصوص فرانس نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ شام میں دہشتگرد گروہوں کو جنم دینے، انہیں پروان چڑھانے اور ان کی بھرپور مدد کرنے سے ایک دن دہشتگردی خود ان کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج یورپ کی بعض حکومتیں دہشتگردی کی اس فصل کو کاٹ رہی ہیں جو انہوں نے مشرق وسطی میں بوئی تھی۔ ماضی کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ حالات کی باگ ڈور دہشتگردوں کے ہاتھوں میں ہے کیونکہ جب وہ چاہتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں دھماکے کردیتے ہیں اسی بنا پر یورپی ملکوں بالخصوص فرانس کے سکیورٹی اور پولیس کے اداروں کی سکیوریٹی تدابیر کارگر ثابت نہیں ہورہی ہیں۔