سعودی عرب داعش کی حمایت بند کرے: عراق
عراق میں سعودی عرب کی جانب سے داعش کی حمایت کا راز فاش ہونے کے بعد اقوام متحدہ میں بغداد کے نمائندے نے اس بین الاقوامی تنظیم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے مقابلے کے دائرۂ کار میں غیر ملکی عناصرکی جانب سے دہشت گردی کی حمایت بند کئے جانے کا راستہ ہموار کرے۔
اقوام متحدہ میں عراق کے نمائندے محمد علی حکیم نے عراق سے متعلق بلائے جانے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں داعش کی سیاسی اور فوجی حمایت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسی پر بھی یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ سعودی عرب جیسے خطے کے ممالک کی این جی اوز ان ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد کے ساتھ عراق میں دہشت گردوں کے اخراجات اٹھا رہی ہیں۔
اس سے قبل سعودی عرب کے وقف بورڈ نے عراق اور شام میں سرگرم تکفیری عناصر اور سعودی عرب کی مساجد کے پیش نمازوں کے بعض اخراجات پورے کرنےکا اعتراف کیا تھا۔ اس بورڈ نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ سرکاری ادارے اس کام کی نگرانی کی توانائی نہیں رکھتے ہیں۔
اقوام متحدہ میں عراق کے نمائندے نے سعودی عرب اور ترکی کی جانب سے عراق کے امور میں مداخلت کی وضاحت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے مقابلے کے دائرۂ کار میں دہشت گرد گروہ داعش کی مالی حمایت روکنے کے لئے ریاض اور انقرہ سے متعلق بین الاقوامی قراردادوں کو عملی جامہ پہنائے۔ بغداد نے عراق میں سعودی عرب اور ترکی کی جانب سے تکفیری دہشت گردوں کی حمایت پر ایسی حالت میں اعتراض کیا ہے کہ سعودی عرب کے اعلی حکام نے دو سال قبل عراق کی وسیع سرزمین پر داعشی دہشت گردوں کے قبضے کے بعد کھلے بندوں اس گروہ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
عراق کے شمال میں ترکی کے فوجیوں کی غیر قانونی موجودگی، عراق کے مقبوضہ علاقوں سے ترکی کے ذریعے عالمی منڈیوں تک تیل کی منتقلی، سعودی عرب میں دہشت گردوں کی تربیت، عراق میں ہونے والے خونریز واقعات پر سعودی عرب کی خاموشی جیسے امور سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ ریاض اور انقرہ عراق سمیت خطے میں دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں۔
درحقیقت ریاض اور انقرہ کی حکومتیں بغداد کے اعتراض اورعراق کی وزارت خارجہ میں اپنے سفیروں کی طلبی پر توجہ دیئے بغیر بغداد کے خلاف اپنے مخاصمانہ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے عراق کے عوام اور حکام برہم ہیں۔
عراق نے ریاض اور انقرہ کی جانب سے عراق میں سرگرم دہشت گردوں کی حمایت پر ایسی حالت میں تنقید اور اعتراض کیا ہے کہ جب دہشت گردانہ حملوں نے سعودی عرب، ترکی اور فرانس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
دریں اثناء خطے اور دنیا کے مبصرین، شخصیات اور حکام نے گزشتہ چند برسوں کے دوران بارہا کہا ہےکہ دنیا بھر میں تشدد، انتہا پسندی اور بدامنی میں آنے والی شدت وہابیت کو ترویج دینے پر مبنی سعودی عرب کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے جسے امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ دنیا کے مبصرین، شخصیات اور حکام نے اس کے ساتھ ساتھ اس بارے میں بھی خبردار کیا تھا کہ یہ دہشت گرد گروہ اپنے حامیوں کے لئے بھی وبال جان بن جائیں گے۔
بہرحال بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہےکہ دوسرے امور میں مداخلت، حکومتوں کی تبدیلی اور ممالک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے پر مبنی سعودی عرب جیسے ممالک کی ناکام پالیسی میں تبدیلی آنی چاہئے کیونکہ اس پالیسی سے نہ صرف دہشت گردی کے حامیوں کے لئے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں بلکہ یہ پالیسی یمن، عراق اور شام جیسے ممالک کی تباہی و بربادی کا بھی سبب بنی ہے۔