Jul ۱۸, ۲۰۱۶ ۱۹:۱۹ Asia/Tehran
  • مشترکہ جامع ایکشن پلان اور جرمن وزیر خارجہ کے بیانات

جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے اپنے ملک کے ٹی وی چینل ٹو کو انٹرویو دیتے ہوئے مشترکہ جامع ایکشن پلان سے متعلق گزشتہ ایک برس کے دوران انجام پانے والے اقدامات کا جائزہ لیا۔

فرانک والٹر اشٹائن مائر نے اس انٹرویو میں کہا کہ ایرانیوں کو اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ کھویا ہوا اعتماد قلیل مدت میں بحال نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے وقت درکار ہے۔

فرانک والٹر اشٹائن مائر نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے ساتھ ساتھ ایران کے میزائل پروگرام کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان میں ایران کے معمول کے میزائل پروگرام کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے ہمیشہ ایران کے میزائل پروگرام پر تنقید کی ہے اور کہا ہےکہ اس طرح اعتماد بحال نہیں ہو سکتا ہے۔

ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان پرعملدرآمد شروع ہونے کے بعد جرمنی سمیت یورپی ممالک کے ساتھ اہم موضوعات کے بارے میں بات چیت شروع کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایٹمی معاہدے کے بعد باہمی تعاون کے سلسلے میں ایران اور یورپ کی سفارت کاری اقتصادی اور تجارتی معاہدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ باہمی تعاون میں توسیع اعتماد سازی کی بنیاد پر ہی استوار ہے۔

ایٹمی معاملے کے بارے میں ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی نے کہا ہے کہ ایران نے اس معاہدے کے سلسلے میں اپنے تمام وعدوں پرعمل کیا ہے۔ لیکن یورپی یونین اور نیٹو کے حالیہ اجلاس میں جو موقف اختیار کیا گیا اس سے ایران کے میزائل پروگرام کے بہانے عدم اعتماد کی عکاسی ہوتی ہے اور اس منفی زاویہ نگاہ کا تعلق ایٹمی معاہدے اور مشترکہ جامع ایکشن پلان کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔

ایران کا میزائل پروگرام صرف دفاعی ہے اور ایران کے بیلسٹک میزائلوں کو ایٹمی وار ہیڈز لے جانے کے لئے ڈیزائن ہی نہیں کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ایران کا میزائل پروگرام مشترکہ جامع ایکشن پلان اورایٹمی مذاکرات کے ساتھ بھی کسی طرح کا تضاد نہیں رکھتا ہے اور اس سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی بھی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے۔

جرمن وزیرخارجہ نے بھی اس انٹرویو میں اشارہ کیا کہ ایران کے میزائل پروگرام کے بارے میں جس تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے اس کا ایٹمی معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس سلسلے میں امریکہ اور یورپ کے مواقف کا مقصد ایک طرح سے ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بعد پیدا ہونے والے ایران مخالف ماحول کو برقرار رکھنا ہے۔

جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بھی اس سے قبل سات جولائی کو دعوی کیا تھا کہ ایران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بے اعتنائی برتتے ہوئے بدستور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بنا اور ان میں توسیع کر رہا ہے۔ جبکہ ایران اپنی دفاعی ڈاکٹرائن کے مطابق ہر خودمختار اور آزاد ملک کے طور پرخطرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے موثر اقدامات کی پلاننگ اوران کو انجام دینے کا حق رکھتا ہے۔ ایران کے مختلف طرح کے بیلسٹک میزائل بھی اس قاعدہ سے مستثنی نہیں ہیں۔

لیکن امریکی حکام کافی عرصے سے ایٹمی مذاکرات کے ساتھ ساتھ ایک ایسے منصوبے پر عمل پیرا ہیں جس کا مقصد مشترکہ جامع ایکشن پلان پرعملدرآمد کے بعد ایران کی دفاعی طاقت میں کمی لانا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس نے بھی اسی سلسلے میں تین بل منظور کئے جوکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے منافی ہیں۔

نیٹو اور یورپی یونین کے مواقف دہرائے جانے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ ان کا مقصد ایران پر دباؤ میں شدت لانا ہے۔ امریکہ اور یورپ ہر طریقے سے اس ہدف کوحاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے لئے ایک دن وہ میزائل پروگرام ، دوسرے دن دہشت گردی اور پھر کسی اور موقع پر انسانی حقوق کو بہانہ بناتے ہیں حالانکہ ان تینوں امور کے سلسلے میں ان کے اپنے اقدامات ان کے دعووں کے منافی ہیں۔

دہشت گردی کی حمایت، نئی نسل کے ایٹمی ہتھیار بنانے سمیت غیر معمولی ہتھیاروں میں توسیع اور انسانی حقوق کے سلسلےمیں یہ ممالک اپنے اقدامات کا دفاع نہیں کر سکتے ہیں لیکن انہی مسائل کو بنیاد بنا کر وہ ایران پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ٹیگس