یمن کے امن مذاکرات کے لیے کویت کی ڈیڈ لائن
کویت کے سیکریٹری خارجہ خالد جاراللہ نے بدھ کے روز کہا ہے کہ یمن مذاکرات میں شامل تمام فریقوں سے کہہ دیا گیا ہے کہ ان مذاکرات کے لیے پندرہ دن کی ڈیڈ لائن پیش نظر رکھی گئی ہے۔
خالد جار اللہ نے کہا کہ اگر پندرہ دن کے اندر ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو کویت ان مذاکرات کی میزبانی نہیں کرے گا۔ ملکوں کا مختلف سطحوں پر خاص طور پر علاقے میں کردار ادا کرنے کا ایک راستہ اجلاسوں اور وفود حتی کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کرنا ہے۔
اس طریقے کو خاص طور پر چھوٹے ممالک استعمال کرتے ہیں۔ مغربی ایشیا کے علاقے کے چھوٹے ممالک بھی علاقے کی تبدیلیوں میں کردار ادا کرنے کے لیے سیاسی مذاکرات اور کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اگرچہ چھوٹے ممالک فوجی لحاظ سے زیادہ طاقتور نہیں ہیں لیکن دوسروں شعبوں میں اپنی طاقت کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور مذاکرات اور کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی اسی کا ایک حصہ ہے۔
دو ہزار گیارہ سے پہلے قطر اور بحرین نے کئی بار اس طریقے کو استعمال کیا۔ بحرین نے کھیلوں کے مقابلوں خاص طور پر فارمولا ون کار ریس کی میزبانی کی اور حتی چودہ فروری کی احتجاجی تحریک شروع ہونے کے بعد بھی اس ریس کی میزبانی کی۔
قطر نے بھی کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کرنے کے علاوہ مختلف ملکوں کے سیاسی وفود کی میزبانی بھی کی جن میں یمنی اور سوڈانی وفود کی میزبانی کا خاص طور سے ذکر کیا جا سکتا ہے۔ حکومت قطر مختلف فریقوں کے اختلافات ختم کرانے کے لیے ثالثی کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ان وفود کی رہائش کے اخراجات بھی برداشت کرتی تھی اوران کے ملکوں میں سرمایہ کاری کا وعدہ بھی کرتی تھی۔
قطر کے ان اقدامات کی وجہ سے بعض تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ قطر کے اثرورسوخ اور طاقت میں کافی اضافہ ہو گیا ہے۔ کویت کی حکومت نے بھی یمن کے بحران میں اس ملک کے مختلف گروہوں کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی۔ کویت اکیس اپریل سے اب تک ان یمنی گروہوں کی میزبانی کر رہا ہے لیکن یمنی وفد اور سعودی عرب سے وابستہ وفد کے مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔
اس بنا پر کویت کے خارجہ سیکریٹری نے یمنی گروہوں کو پندرہ روز کی مہلت دی ہے اور کویت کے وزیر خارجہ شیخ صباح خالد حمد الصباح نے بھی صنعا اور ریاض کے وفود اور یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسماعیل ولد الشیخ احمد کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔
کویت کی حکومت اس وقت یمنی گروہوں کے مذاکرات کو اپنی خارجہ پالیسی کی ایک کامیابی قرار دے سکتی ہے کہ جب یہ مذاکرات بحران کو ختم کرنے کے سلسلے میں نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ ورنہ یہ کویت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی سمجھے جا سکتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت کویت کی جانب سے یمنی گروہوں کے لیے مہلت کا تعین کرنا بحران کے خاتمے کے لیے یمنی گروہوں کے کسی راہ حل تک پہنچنے میں موثر ثابت نہیں ہو گا۔