Jul ۲۳, ۲۰۱۶ ۱۸:۴۱ Asia/Tehran
  • آل سعود اور صیہونی حکومت کے تعلقات

سعودی عرب کے سابق انٹلیجنس افسر انور عشقی نے گذشتہ ہفتے ایک اعلی رتبہ وفد کے ہمراہ تل ابیب کا دورہ کیا تھا۔انہوں نے اس دورے میں بعض صیہونی حکام اور صیہونی پارلیمنٹ کے بعض اراکین سے ملاقات اور گفتگو کی۔

 صیہونی اخبار ھاآرتص نے لکھا ہے کہ انور عشقی نے دورہ تل ابیب میں وزارت خارجہ کے ڈائرکٹر جنرل ڈوری گولڈ اور صیہونی پارلیمنٹ کے کئی اراکین سے ملاقات کی۔ انور عشقی کے دورہ اسرائیل میں یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ اور سرمایہ کار بھی ساتھ تھے۔

انورعشقی اورڈوری گولڈ نے دوہزار پندرہ میں بھی واشنگٹن میں کئی مرتبہ خفیہ ملاقاتیں کی تھیں اس کے بعد انہوں نے پریس کے سامنے ایک دوسرے سے ملاقات کی۔ انورعشقی صیہونی حکومت کے ساتھ سعودی عرب کی ڈپلومیسی کے کوآرڈی نیٹر ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں صیہونی اخبار یدیعوت آرونوت سے گفتگو میں کہا ہے کہ ریاض اور تل ابیب اپنے مشترکہ دشمنوں کو پہچان سکتے ہیں۔

سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات میں آنے والی تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انورعشقی نے بار بارمقبوضہ فلسطین کا دورہ کرکے نیز صیہونی حکام سے ملاقاتیں کرکے آل سعود اور تل ابیب کی خفیہ سفارتکاری کو اب آشکار کردیا ہے۔ صیہونی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں مضبوط ہوتے تعلقات کا مقصد علاقے کی صورتحال اور دہشتگردی کے مقابلے میں استقامت کے کردار کے پیش نظر سعودی عرب کا ھدف استقامت کا مقابلہ کرنا ہے۔

سعودی عرب نے ایسے حالات میں صیہونی حکومت کی طرف دوستی کاہاتھ بڑھایا ہے کہ قدس کی غاصب حکومت علاقے میں متعدد مشکلات کا سبب ہے اور استقامت کے محور کی بھی سب سےکٹر دشمن ہے۔

سعودی عرب ایسے عالم میں صیہونی حکومت کی مدد سے اپنے اھداف حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ صیہونی حکومت امت اسلامی کی مشترکہ دشمن ہے اور فلسطینیوں نیز لبنان کی قوم کے خلاف اس کے نسل پرستانہ اقدامات ہر حریت پسند انسان کا دل خون کردیتے ہیں۔

چاہیے تو یہ تھا کہ عالم اسلام کے وسائل و ذرائع اسلامی امۃ کے لئے استعمال ہوتے تاکہ عالم اسلام صیہونی دشمن کے شر سے محفوظ رہتا لیکن سعودی حکومت مطلق شراور ریاستی دہشتگردی کے سب سے بڑے مصداق سے اپنے اسٹراٹیجیک تعلقات بڑھا کر اسلامی امۃ کے حق میں ظلم کررہا ہے۔

اسلامی امۃ سے سعودی عرب کی خیانت اور ظلم و ستم خادم الحرمین شریفین کی حیثیت سے آل سعود کی پیشانی پر بدنما داغ ہے۔ واضح رہے خادم الحرمین شریفین اور اسلامی تعاون تنظیم کا میزبان ہونے کی حیثیت سے سعودی عرب پر فرض بنتا ہے کہ وہ صیہونی جارحیت کے مقابل مظلوم ملت فلسطین کی حمایت کرے۔

سعودی عرب اور صیہونی حکومت کا تعاون حزب اللہ لبنان کو بھی نشانہ بنارہا ہے کیونکہ حزب اللہ صیہونی حکومت کی جارحیت اورآل سعود اور تل ابیب کے حمایت یافتہ تکفیری دہشتگردوں کے مقابل ایک انسدادی طاقت ہے۔ سعودی عرب، امریکہ اور صیہونی حکومت کے ہمراہ استقامت کے خلاف عمل کررہا ہے یہ مثلث حزب اللہ کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کرنے اور اس پرمالی پابندیاں لگانے میں ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں۔ اسی ھدف کے لئے بیروت میں آل سعود کا سفارتخانہ حزب اللہ کے خلاف صیہونی حکومت کا جاسوسی اڈا بن گیا ہے۔

اسلامی ملک ہونے کے ناطے سعودی عرب کی توانائیاں اسلامی امۃ کی ترقی اور پیشرفت اورعالم اسلام کے سب سے بڑے دشمن، اور داعشی اور تکفیری دہشتگردوں کے مقابل اسلامی محاذ کو مضبوط بنانے کے بجائے ان ہی اسلام کے دشمنوں کی حمایت میں صرف ہورہی ہیں۔

سعودی عرب نے عالم اسلام کے دو اہم اصولوں یعنی مشترکہ مفادات اور مشترکہ دشمن کے مقابل صف آرائی سے آگہی رکھنے کےباوجود بھی صیہونی حکومت کے ساتھ مختلف پہلوؤں سے اسٹراٹیجیک تعلقات قائم کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے اور آل سعود کا یہ اقدام امت اسلامی کی پیٹھ میں خنجر گھوپنے کے مترادف ہے۔        

ٹیگس