عراقی عوام دہشت گردی سے چھٹکارے کے خواہاں
عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے اپنے ملک کے تمام سیاسی گروہوں اور جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سیاسی کشیدگی سے گریز کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنا نصب العین قراردیں۔
انھوں نے بغداد میں ایک کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ تمام سیاسی گروہوں کو چاہئے کہ وہ عراق کے معاشرے اور مسلح افواج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سوا دیگر مسائل میں الجھانے کی کوشش نہ کریں۔ حیدر العبادی نے کہا کہ سب کو حکومت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے مگر کسی کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اصلاحات کے نام پر، ایسی صورت میں خود اس کا رویہ اصلاحات کے برخلاف ہو، سماج و معاشرے کے لئے مسائل پیدا کرے۔
عراق میں داعش گروہ کی دہشت گردی اور بدعنوانی، دو اہم ترین مسائل ہیں اور اس ملک میں پائدار امن کی ضمانت کے لئے داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف مہم کی اہمیت کی بناء پر بدعنوانی کے خلاف مہم اوراصلاحات پرعمل درآمد کا مسئلہ، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثر ہو گیا ہے۔
عراق کے دارالحکومت بغداد میں تقریبا ہر ہفتے بعض عراقی عوام، کہ جن میں زیادہ تر مقتدی صدر کے طرفدار ہوتے ہیں، جمع ہوتے ہیں اور بدعنوانی کے خلاف حکومت کے کڑے اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ مظاہرین سمجھتے ہیں کہ اصلاحات پرعمل کئے جانے سے بدعنوانی کا مکمل خاتمہ ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل حیدرالعبادی کی ٹیکنوکریٹ کابینہ کی تشکیل پر بھی بغداد میں سیاسی کشمکش کا مشاہدہ کیا گیا تھا اور پھر پارلیمنٹ کے احاطے میں دھرنا شروع کردیا گیا تھا۔ صدر گروہ کے طرفدار، تیس اپریل اور انّیس مئی کو پارلیمنٹ کی عمارت میں بھی داخل ہو گئے تھے۔ آخرکار حیدرالعبادی کی ٹیکنوکریٹ کابینہ، تشکیل نہیں پا سکی حالانکہ کابینہ کی تشکیل، اصلاحات کا ہی ایک حصہ اعلان کی گئی تھی۔تاہم کابینہ کو مقتدی صدر کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کابینہ میں ان کی جماعت کے حصے داری کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا جبکہ وہ پارٹی حصے داری کی بنیاد پر کابینہ کی تشکیل کے ہی خلاف ہے۔
دوسری جانب فلوجہ میں داعشی دہشت گردی کا بڑھتا ہوا خطرہ، اس بات کا باعث بنا ہے کہ ساری توجہ اس اسٹریٹیجک شہر کو داعش دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرانے پردی جائے۔ صوبے الانبار میں فوج، عوامی رضاکار فورس اور قبائلی جوانوں کے مشترکہ تعاون کے نتیجے میں صرف ایک ماہ میں فلوجہ کی آزادی کی کارروائی کامیاب ثابت ہوگئی۔ اس کامیابی سے عراق کے سیاسی ماحول پر بھی اثر پڑا اور فلوجہ میں عراقی فورسز کی کامیاب کارروائی کا، مختلف عراقی گروہوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا۔
فلوجہ کی کامیاب کارروائی صوبے نینوا کے صدر مقام موصل کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرانے کے لئے ایک بڑا سرمایہ شمار ہوتی ہے۔ داعش دہشت گرد گروہ کے آخری محاذ کو تباہ کرنے کے لئے عراقی مسلح افواج، عوامی رضاکار فورسزاور قبائلی جوانوں کی جانب سے میدان جنگ میں یکسوئی اور باہمی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ صوبے نینوا کو آزاد کرانے کی کارروائی کو بھی کامیاب بنایا جا سکے اور یہ مقصد، فلوجہ کے تجربے کی تکرار سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ایسی صورت حال میں عراقی معاشرے میں تفرقہ یا سیاسی کشیدگی پیدا کرنا، عراق کے قومی مفادات کے حق میں نہیں ہے۔ فوجی توانائی میں میں اضافہ کیا جانا داعشی دہشت گردی کے خلاف میدان جنگ میں کامیابی کا ایک بہترین طریقہ ثابت ہوا ہے جبکہ سیاسی گروہوں کی یکسوئی کے زیرسایہ ہی بدامنی کے خلاف مہم اور وسیع پیمانے پر اصلاحات پرعمل درآمد کی ضمانت فراہم کی جاسکتی ہے۔