Jul ۳۱, ۲۰۱۶ ۱۹:۰۰ Asia/Tehran
  • امریکی جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف کا دورہ عراق

امریکی جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جوزف ڈینفرڈ نے عراق کے اعلی حکام اور داعش کے خلاف قائم عالمی اتحاد کے کمانڈروں سے ملاقات کے لئے ہفتے کے روز بغداد کا دورہ کیا۔

امریکی جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جوزف ڈینفرڈ کا یہ پانچواں دورہ عراق ہے۔ انھوں نے حال ہی میں داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف مہم پرمزید توجہ مرکوز کی ہے۔ جنرل جوزف ڈینفرڈ نے عراق میں امریکہ کے سفیراسٹیورٹ جونز اور داعش مخالف اتحاد کے کمانڈر سین مک فارلینڈ سے ملاقات کی۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے مختلف سیاسی و فوجی حکام کے عراق کے دورے، صوبے نینوا اور خاص طور سے عراق کے دوسرے بڑے شہرموصل میں داعش دہشت گرد گروہ کے ٹھکانوں پرعراقی فوج اورعوامی رضاکار فورس کے حملوں میں تیزی آنے کے پیش نظر انجام پا رہے ہیں۔

امریکہ کو اس بات کا خدشہ ہے کہ عراق میں فوجی موجودگی اور مختلف قسم کے ہتھیاروں کے ساتھ اس ملک میں متعدد امریکی فوجی ٹھکانوں کے باوجود اس ملک میں داعش مخالف کارروائیوں کے عمل کا کنٹرول اس کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے اور وائٹ ہاؤس کی خواہش کے برخلاف صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔

حال ہی میں عراق کے وزیرخارجہ خالد العبیدی نے موصل کو آزاد کرائے جانے کی کارروائی میں امریکی فوجیوں کی شرکت کے بارے میں امریکی حکام کے بیانات کے ردعمل میں کہا ہے کہ ان کے ملک کو موصل کو آزاد کرانے کے لئے امریکی فوجیوں کی ضرورت نہیں ہے۔

امریکی فوج کی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے کہا تھا کہ امریکہ اوراس کے اتحادی، موصل کو آزاد کرانے کی کارروائی میں شرکت کے لئے آمادہ ہو رہے ہیں۔ موصل کو آزاد کرانے کے لئے آپریشن میں غیرملکی، خاص طور سے امریکی بّری فوج کی شرکت پرحکومت عراق کی مخالفت کی وجہ، صوبے الانبار میں داعش دہشت گرد گروہ کے قبضے سے فلوجہ کو آزاد کرانے میں عراقیوں کا تجربہ ہے۔

فلوجہ کے کامیاب تجربے نے عرقیوں کے لئے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ عراقی فوج اورعوامی رضاکار فورس کی متحدہ کارروائی کے ساتھ ساتھ سیاسی اتحاد و یکجہتی کے ہمراہ موثر طریقے سے عمل میں لایا جانے والا فوجی اقدام، عراق کے مختلف علاقوں اور شہروں سے داعش دہشت گرد گروہ کو نکال باہر کرنے کے لئے بہترین اور کارآمد ترین طریقہ ہے اور اس سلسلے میں امریکی فوجیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ فلوجہ کو آزاد کرائے جانے کی کارروائی کے دوران امریکی فوجیوں نے کئی بارعراقی فوجیوں پر بمباری کی اور یہ دعوی کیا کہ یہ بمباری غلطی کے نتیجے میں ہوئی ہے۔

جبکہ عراقی ذرائع نے ایسی ویڈیو تصاویر بھی جاری کی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ داعش کے زیرقبضہ علاقوں میں امریکی ہیلی کاپٹر، پروازیں کر رہے ہیں۔ اس قسم کے مسائل سے داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف مہم کے بارے میں امریکہ کی صداقت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

دوسری جانب عراق کے سیاسی و فوجی حکام کا کہنا ہے کہ فلوجہ کو آزاد کرانے کی کارروائی کا تجربہ، موصل کو آزاد کرانے میں کامیاب ثابت ہو گا۔ واضح رہے کہ عراق کا اہم شہرموصل، دس جون دو ہزارچودہ میں عراق کے بعثی عناصر اور داعش دہشت گرد گروہ کی مشترکہ سازش کے نتیجے میں سقوط کر گیا تھا اور جب سے ہی اس شہر کے عوام، داعش دہشت گرد گروہ کے وحشیانہ جرائم کے پیش نظرعراقی فوج اورعوامی رضاکارفورس کی مشترکہ کارروائی کے نتیجے میں اس شہر کی آزادی کی آرزو کر رہے ہیں۔

چنانچہ امریکی جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جوزف ڈینفرڈ کے دورہ عراق سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ، اس سلسلے میں لاتعلق نہیں ہے اور وہ داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف مہم کے بہانے عراق کے داخلی امور میں مداخلت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

جنرل جوزف ڈینفرڈ کی عراق میں امریکہ کے سفیراسٹیورٹ جونزاور داعش مخالف اتحاد کے کمانڈر سین مک فارلینڈ سے ملاقات سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن، عراق میں موصل کو آزاد کرائے جانے کی کارروائی میں امریکہ کی شرکت کے لئے عراقی حکام پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔

بغداد سے ملنے والی سرکاری رپورٹوں کے مطابق جنرل جوزف ڈینفرڈ نے آج اتوار کے دن عراق کے وزیراعظم حیدرالعبادی سے ملاقات میں داعش کے قبضے سے موصل کو آزاد کرائے جانے کے منصوبے کا جائزہ لیا ہے۔

ٹیگس