یمن کے خلاف سعودی عرب کی جاری جارحیت
یمن کے خلاف حالیہ جارحیت کی وجہ سے عالمی برداری کی طرف سے سعودی عرب اور اسکے حامیوں کے خلاف مذمتوں میں روز بروز اضافہ
یمن کے خلاف سعودی عرب کی جاری حالیہ جارحیت پر عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور عالمی سطح پر وسیع مطالبات ہورہے ہیں کہ سعودی عرب کے حملوں کو روکنے کے لئے اس پرتشدد حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر روکی جائے اسی طرح یمن کے خلاف حالیہ جارحیت کی وجہ سے عالمی برداری کی طرف سے سعودی عرب اور اسکے حامیوں کے خلاف مذمتوں میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔اس حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹ واچ نے سعودی عرب کی طرف سے یمن پر کئے جانے والے غیر قانونی حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کی ہے کہ امریکہ کی طرف سے ہتھیاروں کی فراہمی کو فوری طور پر روکا جائے ۔اس تنظیم کی ڈائریکٹر سارا مارگن نے واشنگٹن میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ نے ایک ایسی حالت میں سعودی عرب کو اربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کی اجازت دی ہے کہ سعودی عرب یمن کے عام شہریوں ،رہائشی علاقوں ،ہسپتالوں ، اسکولوں اور تعزیتی مجالس پر بمباری کررہا ہے ۔مارگن نے سعودی عرب کو دئے جانے والے ہتھیارون کی فراہمی کو فوری طور پر بند کرنے اور امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کے ساتھ ملکر یمنی شہریوں پر ہونے والے حملوں میں شرکت کے فیصلے پرنظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے ۔اس سے پہلے بھی عالمی برادری نے کئی بار سعودی عرب جیسی خطے کی جارح،مہم جو اور توسیع پسندانہ عزائم کی حامل حکومت کو یمن کے خلاف جارحانہ ہتھیاروں کی فراہمی کے تباہ کن نتائج سے خبردار کیا ہے۔امریکہ نے ایسے عالم میں خلیج فارس کے بعض ممالک کو ہتھیاروں کی فراہمی کا سلسلہ شروع کررکھا ہے کہ ان ہتھیاروں نے خطے کی سلامتی کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے ۔امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ہتھیاروں کی خریداری کے اربوں ڈالر کے سودے انجام پاچکے ہیں اور اس میں گزشتہ کچھ عرصے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔سعودی عرب اور مغرب کے درمیان فوجی شعبے میں حالیہ تعاون کا نتیجہ علاقے میں نئے مسائل پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور برآمد نہیں ہوگا۔سعودی عرب کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کا اقدام ایسے عالم میں انجام پارہا ہے کہ اس ملک کے تمام اقدامات علاقائی امن و استحکام سے تضاد رکھتے ہیں اور قرائن سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب علاقے میں تکفیری گروہون کو مسلح کرنے میں ممد و معاون ثابت ہورہا ہے اور ان دہشتگرد گرد گروہوں کی تکفیری وہابی نظریاتی بنیادیں بھی سعودی حکومت سے ہی وابستہ ہیں۔مغرب اور امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیاروں سے سعودی عرب نے یمن کے نہتے عوام کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا جس میں یمنی شہریون کی ایک بڑی تعداد ماری گئی ہے جس میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں ۔یمن کی موجودہ صورت حال اور امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کے ساتھ ملکر اس ملک کے امور میں مداخلت اور بے گناہ یمنیوں کے قتل عام میں شرکت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ سعودی عرب کی مکمل پشت پناہی کررہا ہے اور علاقے میں موجود عناصر کے زریعے اپنے مذموم اھداف کے حصول میں کوشاں ہے ۔اسی حوالے سے گزشتہ چند ماہ میں یہ خبریں تسلسل سے سامنے آتی رہی ہیں کہ امریکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد القاعدہ کے دہشتگردون سے مقابلے کےبہانے یمن میں داخل ہوئی ہے ۔امریکی فوجیوں کی یہ مشکوک نقل و حرکت خود بہت سے سوالوں کے جنم لینے کا باعث بنی ہے دوسری طرف امریکی حکام کئی بار تاکید کرچکے ہیں کہ وہ ڈرون حملوں کے زریعے القاعدہ کے خلاف اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔سعودی عرب نے امریکہ سمیت اپنے دیگر اتحادیوں کے اشاروں اور ایما پر 26 مارچ 2015 کے دن یمن پر وسیع جارحیت کا اغاز کیا تاکہ منصور ہادی کو واپس اقتدار پر واپس لا سکے ۔سعودی عرب کی طرف سے یمن کے عوام کے قتل عام کو جاری رکھنا اور امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کو ہتھیار فراہم کرنا نیز دوسرے میدانوں میں سعودی عرب کی براہ راست مدد کرنا ایسے اقدامات ہیں جس پر عالمی برادی کو سخت تشویش لاحق ہے ۔