علاقے کے مسائل اور دہشت گردی کے خلاف مہم سے متعلق عرب لیگ کی کارکردگی پر تنقید
عراق کے وزیر خارجہ نے علاقے کے مسائل اور دہشت گردی کے خلاف مہم کے سلسلے میں عرب لیگ کی کارکردگی پر کڑی تنقید کی ہے۔
عراق کے وزیر خارجہ ابراہیم جعفری نے جمعے کے روز مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط سے ملاقات میں کہا ہے کہ ایسے میں کہ جب عراق کے علاقوں کو داعش دہشت گرد گروہ کے قبضے سے آزاد کرانے کی کاروائی ، اور ان علاقوں کے پناہ گزینوں کی وطن واپسی جاری ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ عرب لیگ، اس کارروائی میں مزید تیزی لانے میں حکومت عراق کی بھرپور مدد کرے۔ بلاشبہ علاقائی بحرانوں کے بارے میں عرب لیگ کے بعض ملکوں منجملہ سعودی عرب اور قطر کے دشمنانہ اقدامات اور ان کا منفی کردار نیز علاقے میں دہشت گردوں کے لئے عرب لیگ کی حمایت، رائے عامہ کی بڑھتی ہوئی تنقید کا باعث بنی ہے۔ واضح رہے کہ عرب لیگ کے بعض رکن ملکوں منجملہ سعودی عرب اور قطر کی خودغرضانہ کارکردگی کی بناء پر اس لیگ نے دہشت گردی کے خلاف مہم کے مسئلے میں سیاسی رویہ اختیار کر لیا ہے۔
عرب اداروں منجملہ عرب لیگ نے ایسی حالت میں دہشت گردی کے سلسلے میں ہنگامی اجلاس تشکیل دیئے ہیں کہ بعض عرب حکمراں ہی، انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ دہشت گردی، کہ جس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، اس وقت دنیائے عرب کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دیگر عرب ملکوں کے مقابلے میں عراق، شام اور لیبیا کو زیادہ دہشت گردانہ حملوں، دھماکوں اور اور دہشت گرد گروہوں کے وجود کا سامنا ہے تاہم دہشت گردی صرف ان ہی چند ملکوں تک محدود نہیں ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ علاقے میں دہشت گردی کو باہر سے حمایت حاصل ہے۔ جیساکہ بعض امریکی حکام منجملہ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ نے ہی دہشت گرد گروہ بنائے ہیں تاہم بعض عرب ملکوں کے حکمرانوں نے بھی دنیائے عرب میں دہشت گردی پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ سعودی عرب، دہشت گرد گروہوں کی حمایت کا مرکز ہے اور آل سعود کے بے تحاشا پیٹرو ڈالر، جو سعودی عوام کی ضروریات پوری کرنے خاص طور سے جوانوں کی تعلیم پر صرف ہونا چاہئے تھے، سعودی شہزادوں کی جیبوں میں جاتے رہے ہیں اور یہی شہزادے دہشت گرد گروہوں کے حقیقی حامی بنے ہوئے ہیں۔
آل سعود کی اطاعت میں متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر کے حکام بھی مختلف طریقوں سے دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں میں شامل ہیں۔ جبکہ یہ دہشت گردی، اب خود حمایت کرنے والوں ملکوں کے لئے بھی وبال جان اور علاقے میں خوف و ہراس کا باعث بنی ہوئی ہے۔ یہ ایسے میں ہے کہ عرب علاقائی اداروں کے دائرے میں عرب حکمراں، بھرپور علاقائی تعاون کرنے کے بجائے دہشت گردی کے خلاف مہم کے سلسلے میں صرف بیانات جاری کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ بعض عرب ملکوں میں دہشت گرد گروہوں کے حملوں کا جائزہ لینے کے لئے عرب لیگ کے اجلاس، ایسی حالت میں تشکیل پاتے ہیں کہ داعش دہشت گرد گروہ کو وجود میں لانے والے ذمہ دار ممالک کی حیثیت سے عرب لیگ کے بعض رکن ممالک نے گذشتہ چند برسوں کے دوران عراق اور شام کے عوام کے خلاف داعش سمیت مختلف دہشت گرد گروہوں کے وحشیانہ جرائم کی کبھی مذمت تک نہیں کی ہے۔ بلکہ ان جرائم کے مقابلے میں عرب لیگ نے خاموشی اختیار کئے رکھی ہے۔
دہشت گرد گروہوں کے اقدامات کا دائرہ، جیساکہ اس سے قبل علاقے کے مختلف ملکوں کے حکام اور سیاسی و مذہبی شخصیات نے خبردار بھی کیا تھا، اب عراق و شام جیسے ملکوں کی سرحدوں سے باہر پورے علاقے خاص طور سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے والے ملکوں کی سرحدوں تک پھیل گیا ہے۔ اس درمیان اعتدال پسندی کا نام دے کر دہشت گردوں کی مالی مدد، دہشت گردوں کی اچھے اور برے میں تقسیم اور دہشت گردی کے ناپاک و شرمناک عمل کے بارے میں عرب لیگ کی دفاعی کارکردگی نے اس لعنت کا دائرہ ، شام سے عراق اور پھر یمن، شمالی افریقہ اور سعودی عرب تک پھیلا دیا ہے۔
ایسی صورت حال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کی مالی مدد اور ہتھیاروں کی فراہمی کا خاتمہ اور مختلف ملکوں کی سرحدوں سے مسلح عناصر کی رفت و آمد کی روک تھام اور دہشت گردی کے خلاف حقیقی جدوجہد کے لئے مختلف ملکوں اور عالمی برادری کا پختہ عزم و ارادہ ہی، واحد وہ طریقہ ہے کہ جس کے ذریعے دہشت گردانہ حملوں کا خاتمہ اور دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے اور یہی وہ مسئلہ ہے کہ جس کی طرف عراق کے وزیر خارجہ ابراہیم جعفری نے قاہرہ میں عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل سے ملاقات میں اشارہ بھی کیا ہے۔