آستین کا سانپ داعش اپنے آقاؤں کو ڈسنے لگا
امریکہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ستائیس دسمبر کو ان خبروں کی تردید کی ہے کہ امریکہ شام میں سرگرم عمل مسلح گروہوں کو اسٹنگر اینٹی ایر کرافٹ میزائل سے مسلح کرنا چاہتا ہے۔
امریکہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ستائیس دسمبر کو ان خبروں کی تردید کی ہے کہ امریکہ شام میں سرگرم عمل مسلح گروہوں کو اسٹنگر اینٹی ایر کرافٹ میزائل سے مسلح کرنا چاہتا ہے۔ مارک ٹونر نے اسی کے ساتھ ساتھ صدر اردوغان کے اس دعوے کو مضحکہ خیز قراردیا کہ امریکہ اور مغربی ممالک داعش کی حمایت کررہے ہیں۔ واضح ہے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان اور اس ملک کی پارلمینٹ سے خطاب میں کہا تھا کہ داعش کے پاس سے مغربی ممالک کی ساخت کے ہتھیار برآمد ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور مغربی دنیا داعش کے ہمراہ ہے اور اس کی حمایت کررہی ہے۔
اردوغان نے کہا کہ ایسے ثبوت و شواہد پائے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کی سربراہی میں عالمی اتحاد دہشتگرد گروہوں منجملہ داعش کی حمایت کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی گروہ نے داعش کی طرح اسلام کو نقصان نہیں پہنچایا ہے اور مغرب داعش کی حمایت کرکے عالم اسلام کو تباہ کرنے کی سمت بڑھ رہا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ترک صدر رجب طیب اردوغان کے دعوی کو کہ امریکی اتحاد داعش کی حمایت کررہاہے مضحکہ خیز قراردیا ہے۔ اگرچہ اردوغان نے دہشتگردوں کے ہاتھوں میں مغربی ہتھیاروں کی بات کی ہے لیکن مارک ٹونر نے شام کے شہرحلب میں دریافت ہونے والے ہتھیاروں کے گوداموں کے بارے میں اشارہ نہیں کیا جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ جنگی ساز وسامان اور ہتھیارترکی کی سرحد سے شام میں داخل ہوئے ہیں۔ شاید کوئی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ شام میں حکومت بشار اسد کے خلاف غیر ملکی اور داخلی مخالفین کے محاذ کی تشکیل کے پانچ سال کے اندر اندر ان کے مفادات کا ٹکراو ہوجائےگا اور شدید اختلافات پیدا ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ دہشتگردوں کے حامیوں کے متضاد موقف بھی دیکھنے کو ملیں گے جنہیں یہ اعلان کرتے ہوئے کہ وہ دہشتگردوں کے حامی ہیں شرم محسوس نہیں ہوتی تھی۔ مغربی علاقائی اور عرب ممالک نے اپنے مخصوص اھداف کے پیش نظر جس میں مشرق وسطی کا سیاسی جغرافیا تبدیل کرنا، قصہ پارینہ بنی سلطنت کا احیاء، مشرق وسطی میں اسلامی بیداری کو منحرف کرنے کے اقدامات، شامل ہیں ان اھداف کے حصول کے لئے داعش کی حمایت کرنا شروع کی اور اس طرح سے علاقے کے سیاسی اور سماجی میدانوں میں داخل ہوئے۔ داعش جیسے گروہوں کی حمایت کرنے سے نہ صرف عراق کی بقا، اور ارضی سالمیت اور قومی اقتدار اعلی نشانہ پر آگئے بلکہ شام میں داخلی بحران کی وجہ سے شام کے سیاسی جغرافیا میں بھی ان گروہوں کی مداخلت دیکھی جانے لگی۔ اس مرتبہ علاقے اور عراق و شام میں مغربی عرب اور علاقائی ملکوں کا پٹھو جو ان کے اھداف کو ان علاقوں میں آگے لے جانے والا تھا ابو بکر البغدادی کے علاوہ اورکوئی نہیں تھا ابوبکر بغداد برسوں تک القاعدہ کا رکن رہا ہے اور اس گروہ سے تعاون کرتا آیا ہے اور دوہزار دس میں حکومت اسلامی کے سربراہ کی حیثیت سے عراق میں ظاہر ہوتا ہے۔ شام میں بحران شروع ہونے کے ایک سال بعد البغدادی نے اپنے زیر کمان دہشتگردوں کو شام بھیج کر عراق و شام میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی اپنے بیرونی اور ذاتی حامیوں کا خواب پورا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے پاس حکومت کرنے کا کوئی آئیڈیل نمونہ نہیں تھا اور اس کے دہشتگرد افغانستان و شمالی افریقہ میں القاعدہ کی جانب سے اپنائے گئے نہایت ہی تشدد آمیز اقدامات کررہے تھے اور اسلامی تعلیمات کی مخالف روشیں اپنانے کی وجہ سے نیز اس گروہ کے خلاف عوام اور حکومت دمشق کی استقامت کو دیکھتے ہوئے داعش کے حامی اس خونخوار گروہ کی حمایت پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔
داعش کے دہشتگرد انہ اقدامات جو اب علاقے کی سرحدوں سے گذر کر یورپ تک پہنچ چکے ہیں اس گروہ کے حامی مغربی اور علاقائی ملکوں کے لئے کوئی بہانہ نہیں چھوڑا ہے لھذا ترکی اور امریکہ جو کسی زمانے میں شام کے صدر بشار اسد کے مخالفین کی کامیابیوں پر مباھات کرتے ہیں اب عالمی رائے عامہ کے دباؤ میں داعش جیسےانسان مخالف اور تکفیری گروہ سے بیزاری کا اظہار کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ ترک صدر اردوغان کا یہ اعتراف کہ امریکہ اور مغربی ممالک داعش کی مدد کررہے ہی اور امریکہ کی جانب سے اس الزام کا مسترد کیا جانا ایک تکفیری صیہونی گروہ داعش کی ماہیت کو ثابت کرتا ہے کہ اب یہ گروہ انقرہ اور واشنگٹن کے لئےوبال جان بن گیا ہے اور انہیں داخلی اور خارجی سطح پر متاثر کررہا ہے اوربات یہاں تک آپہنچی ہے کہ ترکی اور امریکہ کوئی بھی ماضی اور حال میں داعش کی حمایت کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔