جنوبی کوریا کے صدارتی امیداوار تھاڈ میزائل کے مخالف
جنوبی کوریا میں تین صدارتی امیدواروں نے اپنے اپنے نظریات بیان کرکے اپنے اھداف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ رائےعامہ دیگر مطالبات کی خواہاں ہے۔
جنوبی کوریا میں تین صدارتی امیدواروں نے اپنے اپنے نظریات بیان کرکے اپنے اھداف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ رائےعامہ دیگر مطالبات کی خواہاں ہے۔
لی جائہ میونگ جو شہر سیونگ نام کے مئیر بھی ہیں اور صدارتی امیدوار بھی انہوں نے کہا ہے کہ وہ تھاڈ میزائل شیلڈ کی تنصیب کے مخالف ہیں۔
اس صدارتی امیداوار نے کہا ہے کہ تھاڈ میزائیل شیلڈ شمالی کوریا کے میزائیلی اور ایٹمی خطرے کا مقابلہ کرنے کاہرگز مناسب حربہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اس اقدام کے ذریعے جنوبی کوریا کو سکیورٹی فراہم کرنے کے بجائے مسائل پیدا کردے گا۔ جنوبی کوریا کے ایک اور صدارتی امید وار بان کی مون ہیں، اقوام متحدہ کی سکریٹری کی حیثیت سے ان کی کارکردگی سے قطع نظر جنوبی کوریا کے عوام نے ان کاکوئی خاص استقبال نہیں کیا ہے۔بان کی مون کسی زمانے میں جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے تھے انہوں نے اس موقع پر بھی کوئی خاص کارکردگی بالخصوص شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں کوئی کارنامہ نہیں دکھایا۔ اس سے اہم تر یہ کہ بان کی مون پر مالی بدعنوانی کے الزامات بھی ہیں۔چنانچہ اگر کسی دن یہ واضح ہوجائے کہ وہ اس الزام میں مجرم قراردئے گئے تو انہیں پہلے ہی سے انتخابات میں اپنی ہار کا یقین کرلینا چاہیے۔ جنوبی کوریا کے صدارتی انتخابات میں ایک اورنامزد وزیر اعظم اور کارگزار صدر ھوا کیوآھین ہیں جو اپنے رقیب یعنی لی جائہ میونگ کے برخلاف تھاڈ میزائیل شیلڈ کے حق میں نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ تھاڈ میزائیل شیلڈ کی تنصیب شمالی کوریا کے موجودہ خطروں کے مقابلے میں ایک ضرورت ہے اور یہ ان خطروں کامقابلہ کرسکتی ہے۔ اس درمیاں جس چیز سے غفلت کی گئی ہے وہ مالی بدعنوانیاں یا کرپشن ہے، اس سےقبل سابق صدر محترمہ پارک گئون ھای کو کرپشن کے الزامات میں ہی صدارت سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ جنوبی کوریا کے عوام کو ا نتظار ہے کہ سابق صدر پارک گیون ھای پر مقدمہ چلانے کےلئے عدالت تشکیل پائے گی حالانکہ آئینی عدالت اور اسکی ذیلی عدالتوں نے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ شایدیہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ شمالی کوریا کے سینئر حکام کی مالی بدعنوانیوں کے کیس فراموش کردئے گئے ہیں۔ البتہ دو صدارتی نامزدوں کے الگ الگ نظریات نے مالی بدعنوانیوں کے مسئلے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن اس سے عوام میں مزید جستجو بڑھی ہے اور وہ مالی بدعنوانیوں کے موضوع کو سمجھنے کی مزید کوشش کررہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا کی صورتحال مکمل طرح سے جاپان سے شباہت رکھتی ہے۔یعنی دو نوں ممالک مشرقی ایشیا میں امریکہ کے دفاعی اتحادی بھی ہیں ان میں بہت ہی کم ایسا ہوا ہےکہ کسی نامزد یا پارٹی نے امریکہ کے ساتھ دفاعی یا سکیورٹی مسئلے پر نظرثانی کی جانے کا مطالبہ کیا ہو۔ایسالگتا ہے کہ سیونگ نام نامی شہر کے مئیر نے جو تھاڈ میزائل کی تنصیب کی مخالفت کی ہے وہ محض انتخابات کے موقع پر عوام کے جذبات سے کھیلنا چاہتے ہیں اور فائدہ اٹھانے کی فکر میں ہیں۔ اسی طرح سے کارگزار صدر اور وزیر اعظم اور دیگر صدارتی امیدوار جو تھاڈ میزائل شیلڈ کی تنصیب کے حامی ہیں وہ جنوبی کوریا کے عوام کو ایک ایسی حقیقت سے آشنا کرنا چاہتے ہیں جسے چھپایا نہیں جاسکتا اور وہ اپنے عوام سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا یہ دو نامزد کس طرح سے قول سے فعل تک پہنچیں گے، البتہ آخری فیصلہ تو جنوبی کوریا کے عوام اپنے ووٹوں سے کریں گے