سعودی عرب کے بزرگ عالم دین آیت اللہ شہید باقر النمر کی پہلی برسی
آج پیر دو جنوری دو ہزار سترہ سعودی عرب کے بزرگ اور مجاہد عالم دین آیت اللہ شہید شیخ باقر النمر کی شہادت کی پہلی برسی ہے۔ آج سعودی عرب کے مشرقی علاقے میں آیت اللہ شہید شیخ باقر النمر کی برسی کی مناسبت سے اجتماعات منعقد ہوئے۔سعودی عرب میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں نے بھی آیت اللہ شیخ باقر النمر کی شہادت کی پہلی برسی پر ان کی یاد کو تازہ رکھا ہے۔
سنہ دوہزار گیارہ میں قطیف میں وسیع مظاہرے ہوئے تھے جس کے بعد جولائی دوہزار بارہ میں آیت اللہ شہید باقر النمر کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
قطیف سعودی عرب کے مشرق میں واقع ہے اور شیعہ آبادی والا علاقہ ہے۔ شیخ نمر کو پندرہ اکتوبر دوہزار پندرہ کو آل سعود کی فوجداری عدالت نے تلوار سے قتل اور سرعام مصلوب کرنے کی سزا سنائی تھی۔ آل سعود کے ہاتھوں آیت اللہ نمر کی شہادت کے بعد آزاد علاقائی اور عالمی اداروں نے اسے ہولناک جرم اور ریاستی دہشتگردی قراردیا اور اسکی مذمت کی۔
آل سعود کی حکومت نے اپنے جرائم کا جواز پیش کرنے کے لئے آیت اللہ شیخ نمر کے ہمراہ کچھ اور نوجوانوں کو بھی آل سعود کے خلاف پرامن مظاہروں میں شرکت کرنے کی بنا پر موت کی سز دی تھی اور ان پر دہشتگردی اور دہشتگرد گروہوں سے تعاون کرنے کے الزام لگائے تھے۔
ارض وحی کے باشندوں خاص طور سے شیعہ مسلمانوں پر آل سعود کی حکومت کا دباؤ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ آل سعود کی فوج نے ملک کے مشرقی علاقوں کے باشندوں پر شدید ترین حملے کئے ہیں اور یہ حملے جاری ہیں۔ بہرحال سعودی عرب کے حالات اور آل سعود کے جرائم پر آئے دن بڑھتے ہوئے اعتراضات اور آیت اللہ شیخ باقر النمر کو شہید کرنے کے سعودی عرب کے مجرمانہ اقدام کے خلاف احتجاج سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آل سعود نے شیخ باقر النمر کو شہید کرکے ایک اور اسٹراٹیجیک غلطی کی ہے جس کی بنا پر یہ ظالم و جابر حکومت مختلف مسائل کا شکار ہوگئی ہے اور اس کی بنیادیں متزلزل ہوگئی ہیں۔
یہ ایسے عالم میں ہے کہ قانونی حلقوں نے بھی آیت اللہ شیخ نمر کی مظلومانہ اور ناحق موت کی سزا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس عظیم اور مجاہد عالم دین کو بے بنیاد الزامات لگا کر قید کیا گیا اور اس کے بعد موت کی سزا دی گئی جبکہ کسی ملک کے قانون میں کسی بھی فرد کو حکومت پر تنقید کرنے کے جرم میں تلوار سے سرکاٹ کر موت کی سزا نہیں دی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ سعودی حکام موت کی سزا کو مخالفین کو خاموش کرنے کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور رعب و وحشت پھیلا کرگھٹن کا ماحول پیدا کرتے ہیں تا کہ کوئی بھی آل سعود کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہ کرسکے۔ آل سعود کے ظلم و ستم کے باوجود سعودی عرب میں ہر روز عدل و انصاف کے مطالبات بڑھ رہے ہیں اور یہ اس بات کی نشانی ہے کہ آل سعود کی حکومت عوام اور عوامی تحریک کے رہنماوں کو تشدد سے مرعوب کرنے میں ناکام رہی ہے۔آیت اللہ شیخ نمر نے بھی آل سعود کی جیلوں میں شہادت تک ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ سعودی عرب میں آل سعود کے خلاف جاری مظاہروں سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عوام آل سعود کی ظالمانہ حکومت کے خاتمے اور جمہوری حکومت کے قیام پر مبنی اپنے مطالبات پورے ہونے تک اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔