جارحین کی ناکامی میں یمن کی عوامی رضاکار فورس کے کردار پر تاکید
یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کے سیکرٹری جنرل نے سعودی عرب اور اس کے مغربی و علاقائی حامیوں کی جارحیت کے مقابلے میں اپنے ملک کے عوام کی جد و جہد کو سراہتے ہوئے یمنی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ جارحین کے خلاف جہاد کے لئے عوامی رضاکار فورس میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شامل ہوں۔
یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کے سیکرٹری جنرل عبدالملک بدر الدین الحوثی نے ہفتے کے دن ایک پیغام میں سعودی جارحین اور ان کے حامیوں کے مقابلے کے لئے عوامی رضاکار فورس میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں یمنی عوام کے شامل ہونے کی رغبت دلاتے ہوئے کہاکہ یمن کے خلاف کی جانے والی جارحیت کے اس مرحلے میں سب سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عوامی رضاکار فورس میں شامل ہو کر قابضوں کے مقابلے میں حتمی فتح کا راستہ ہموار کر دیں۔
عبدالملک الحوثی نے یمن کے خلاف جارحیت شروع کرنے کے موقع پر قابضوں کے اس دعوے کی ناکامی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ، کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یمن کے انقلابی اور عوامی گروہوں کو دو ہفتوں کے اندر اندر کچل کر رکھ دیا جائے گا ، کہا کہ یمنی عوام کی استقامت اور ثابت قدمی کی بنا پر نہ صرف قابض اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوئے بلکہ یمنی گروہوں کے درمیان اتحاد کے جذبے کو بھی تقویت ملی۔
سعودی عرب نے چھبیس مارچ سنہ دو ہزار پندرہ سے یمن کے خلاف جنگ شروع کی تھی اسے توقع تھی کہ یہ جنگ بہت جلد ختم ہوجائے گی اور تحریک انصار اللہ کو شکست ہوجائے گی اور یمن کا اقتدار دوبارہ اس ملک کے مستعفی صدر منصور ہادی کو حاصل ہوجائے گا۔ لیکن یہ جنگ قلیل مدت میں ختم نہیں ہوئی اور اب اس جنگ کو شروع ہوئے تقریبا تیئیسواں مہینہ گزر رہا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہےکہ سعودی عرب کی حکومت کو یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کی استقامت اور ملکی سطح پر اس تحریک کی سیاسی قوت کا اندازہ نہیں تھا۔ انصاراللہ کے مجاہدین نے یمن کی عوامی استقامت کی ایک علامت کے طور پر تقریبا تیئیس مہینوں کے دوران سعودی عرب کی بمباری کے مقابلے میں سعودی عرب کی سرزمین میں سعودی فوجیوں اور یمن کے اندر موجود ان کے پٹھوؤں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ آل سعود کے جدید ترین فوجی سازوسامان سے لیس ہونے اور اس کی مالی صلاحیتوں کی بنا پر ایک غیر مساوی جنگ ہے۔ لیکن فوجی سازوسامان کبھی بھی ایمان کا نعم البدل نہیں بن سکتا ہے اور ایمان انصاراللہ کے مجاہدین کے پاس ہے اور اسی خصوصیت کے پیش نظر یمن کی عوامی رضاکار فورس میں شامل بہت زیادہ افراد کی جانب سے آل سعود کے مقابلے میں انصاراللہ کا ساتھ دینے کا سبب بنی ہے اور اسی کی وجہ سے ہی سعودی عرب کو یمن میں کامیابی کے حصول میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب یمن سے ملنے والی خبروں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ اس ملک کے عوام اپنے قیام کے اہداف تک رسائی یعنی ملک میں بنیادی سیاسی تبدیلیاں لانے کے مقصد سے سعودی عرب کی جارحیت کے مقابلے کے لئے دفاعی اور سیاسی میدان میں جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہو رہے ہیں۔ یمن کی صورتحال اور اس ملک کے سیاسی اور دفاعی میدانوں میں عوام کی بھرپور شرکت سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کے عوام اپنے انقلاب کے اہداف حاصل کرنے، حکومتی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانے، جمہوریت برقرار کرنے اور تسلط پسند طاقتوں سے وابستہ پٹھو حکومت کی نفی کرنے کے سلسلے میں پرعزم ہیں۔ اس لئے یمنی عوام اپنے ملک میں جمہوری حکومت کی تشکیل پر زور دے رہے ہیں۔ اسی لئے امریکہ اور سعودی عرب کے منصوبے کے تناظر میں آنے والی ظاہری تبدیلیاں ان کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ یمن میں عوام کی انقلابی تحریک شروع ہونے کے بعد تسلط پسند طاقتوں نے عبدربہ منصور ہادی کو اقتدار کی منتقلی کی راہ ہموار کرنا شروع کر دیا۔ یمنی عوام کے دشمنوں یعنی سعودی عرب اور امریکہ کو جب یمنی عوام کی انقلابی تحریک میں شدت پیدا ہونے کے بعد اس ملک میں اپنی پوزیشن خطرے میں نظر آئی تو انہوں نے اس انقلابی تحریک کو ناکام بنانے اور مغرب کے حمایت یافتہ آمرانہ نظام کو دوبار اس ملک میں نافذ کرنے کے لئے مختلف طرح کے حربے استعمال کرنے شروع کر دیئے۔ ان کی پوری کوشش یہ تھی کہ انقلابی تحریک کے بعد اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں جانے کے بجائے سابقہ حکومت کے باقی ماندہ افراد کے ہاتھوں میں چلا جائے۔ ان حالات میں یمن کے عوام نے اپنے ملک میں بنیادی تبدیلیاں لانے پر تاکید کی۔ یمن کے سیاسی اور دفاعی میدانوں میں اس ملک کے عوام کی بھرپور شرکت سے عرب ممالک میں اسلامی بیداری کے دائرۂ کار میں یمنی عوام کی ہوشیاری کی عکاسی ہوتی ہے۔