Feb ۰۶, ۲۰۱۷ ۱۵:۴۲ Asia/Tehran
  • امریکی نظام عوام کی جاسوسی کا حامی

امریکہ میں ایک عدالت نے اتوار کو فیصلہ سنایا ہے کہ گوگل کمپنی امریکہ کے باہر سروروں پر رجسٹر کئے گئے تمام ای میل امریکی فیڈرل پولیس کے حوالے کرنے کی پابند ہے۔

ریاست فلاڈلفیا کے ایک جج تھامس ریوٹر نے اعلان کیا ہے کہ ایف بی آئی کا بیرون ملک سروروں سے بھیجے جانے والے ای میلوں کا جائزے کے مقصد سے ارسال کیا جانا غیر قانونی نہیں ہے۔ گوگل کے عھدیداروں نے کہا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے۔ فلاڈلفیا کی عدالت کا مائیکرو سافٹ کے حق میں دیا گیا یہ فیصلہ امریکی اپیل کورٹ کے فیصلے کے بالکل بر عکس ہے۔ نیویارک میں اپیل کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ مائیکروسافٹ کمپنی یا کسی بھی امریکی کمپنی پر یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ بیرون ملک رجسٹرڈ اپنی معلومات امریکی عدلیہ کے سپرد کرے۔البتہ اسی عدالت کے چار ججوں نے سپریم کورٹ اور امریکی کانگریس سے مطالبہ کیا تھا کہ نیویارک اپیل کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کی ممانعت کریں۔ ایف بی آئی کو بیرون ملک رجسٹر شدہ ای میل ارسال کرنے کے حامی ججز کا کہنا ہےکہ نیویارک اپیل کورٹ کے فیصلے سے امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کو خطرہ پہنچتا ہے۔امریکہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیوں نے متعدد مرتبہ  اپنے صارفین کے پرائیویٹ معاملات میں امریکی انٹلیجنس اور سکیورٹی ایجنسیوں کی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ داعش جیسے دہشتگرد گروہ انٹرنیٹ اور موبائل فونوں کے ذریعے کوڈڈ پیغام بھیج کر معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور اپنے اقدامات کے لئے ہماہنگی کرتے ہیں۔

امریکی حکومت اور اسکی انٹلیجنس اور سکیورٹی ایجنسیوں نے گیارہ ستمبر دوہزار ایک کے واقعات کے بعد سے دہشتگردی کے بہانے ٹیلیفونی مکالمات سننے اور انٹرنیٹ پر معلومات کے تبادلے کی جانچ پڑتال کی ہے۔ امریکہ کی یہ جاسوسی کی سرگرمیاں خود امریکی عوام کے خلاف اور دیگر ملکوں کی حکومتوں اور شہریوں کے خلاف انجام دی گئی ہیں۔ یاد رہے امریکہ کی یہ جاسوسی کی سرگرمیاں بہت دنوں تک خود امریکہ کے عوام اور دیگر ملکوں کی آنکھوں سے پوشیدہ تھیں، ان سے، ایڈورڈ اسنوڈن نے جو امریکین سکیورٹی ایجنسی کے سابق کارکن ہیں،  پردہ ہٹایا تھا۔اسنوڈن نے انکشاف کیا کہ امریکہ کے انٹلیجنس اور سکیورٹی ادارے امریکی شہریوں کے مختلف معاملات بالخصوص ٹیلیفون کالز اور ان کے کمپیوٹر میں موجود مواد اور انٹرنیٹ پر ان کے کاموں پر بھرپور نگرانی کررہے ہیں۔ ایڈورڈ اسنوڈن نے امریکی شہریوں کے خلاف کی جانے والی جاسوسی سے پردہ ہٹا کر امریکہ اور امریکہ کے بعض اتحادی ملکوں میں خاصہ تنازعہ کھڑا کردیا تھا۔جاسوسی کی رسوائی کے بعد امریکہ پر کافی تنقیدیں ہونے لگیں اور دباؤ بڑھنے لگا اس سے امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما مجبور ہوئے کہ اس مسئلے کو ختم کرے کےلئے خود میدان میں آئیں۔اوباما نے جولائی دوہزار تیرہ میں یہ فرمان جاری کیا کہ جس کی رو سے امریکی انٹلیجنس ایجنسیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوئی کہ وہ اپنے پروگراموں کے بارے میں عوام کو زیادہ سے زیادہ مطلع کرتے رہیں۔ایڈورڈ اسنوڈن کے انکشافات سے پہلے یہ تصور کیا جاتا تھا کہ امریکی انٹلیجنس صرف غیر ملکیوں پر نظر رکھتی ہے تاہم امریکی عوام کو یہ معلوم ہوگیا کہ ان کی حکومت کی جاسوسی کی کارروائیاں اس سے کہیں بڑھ کرہیں۔  امریکی حکومت آزادی نامی قانون کی منظوری کے بعد بھی جس میں جاسوسی کے لئے امریکی انٹلیجنس اور سیکورٹی ایجنسیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، بدستور اصرار کررہی ہے کہ انٹلیجنس اور سکیوریٹی اداروں کو عوام کی پرائیویٹ معلومات حاصل کرنی چاہئیں۔ اب امریکہ کی ایک عدالت کے فیصلے سے امریکی شہریوں اور دیگر ملکوں کے خلاف امریکہ کی کھلم کھلا جاسوسی کا راستہ کھل گیا ہے جو گوگل انٹرنیٹ کمپنی کا استعمال کرتے ہیں اس کے علاوہ امریکہ کے شہریوں کے خلاف جاسوسی کی کارروائیاں بدستور جاری ہیں۔

 

ٹیگس