سابق امریکی حکام کی، ٹرمپ کی پالیسیوں سے مقابلے کی اپیل
امریکی ڈموکریٹک پارٹی کے بعض سینئر اراکین منجملہ سابق امریکی وزرائے خارجہ جان کیری اور میڈلین آلبرائٹ نے پیر کو اس ملک کی وفاقی عدالت سے اپیل کی ہے کہ وہ ٹرمپ کی جانب سے تارکین وطن کے خلاف جاری کئے گئے فرمان پر عمل درآمد کو معطل کرنے کے اپنے فیصلے پر باقی رہے-
ڈموکریٹک پارٹی کے ان عہدیداروں نے ایک مراسلے میں، جو دستاویز کے طور پر وفاقی عدالت کو پیش کی گئی ہے ، کہا ہے کہ ستائیس جنوری کو ٹرمپ کی جانب سے جاری کیا جانے والا ایگزکٹیو آرڈر غیر منطقی اور ایک بدترین آرڈر ہے- ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کے ایگزکٹیو آرڈر پر امریکہ کی سابق حکومت کے سینئر اراکین کا ردعمل ، اس سلسلے میں ہونے والی وسیع مخالفتوں کے پیش نظر، چاہے وہ امریکہ کےاندر ہو یا باہر قابل وضاحت ہے-
واضح رہے کہ سات اسلامی ملکوں کے شہریوں پر امریکا میں داخلے پرپابندی عائد کرنے کے بارے میں ٹرمپ کے حکم کے بعد امریکا اور پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں - حتی امریکا کے پرانے اتحادی ملکوں نے بھی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے-
درحقیقت مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کے بارے میں ٹرمپ کے ایگزکٹیو آرڈر کے پہلے تک کے دیگر احکامات داخلی پہلو کے حامل تھے اور یا پھر اس کے ہمسایہ ممالک مثلا میکسیکو سے مربوط تھے لیکن ٹرمپ کا حالیہ ایگزکٹیو آرڈر درحققیت بین الاقوامی پہلو کا حامل تھا اور عالم اسلام کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر ناقابل انکار منفی اثرات مرتب ہونے کے علاوہ ، دیگر ملکوں خاص طور پر ان یورپی ملکوں کے ساتھ بھی، جن کے باشندے دوہری شہریت رکھتے ہیں، اس فرمان سے متاثر ہوئے-
ٹرمپ کے فرمان کے منظرعام پر آنے کے ساتھ ہی کئی دنوں تک امریکی ایئرپورٹس پر بد نظمی اور افراتفری کی صورتحال دیکھنے میں آئی- اسی لئے فیڈرل جج جیمز رابرٹ نے ٹرمپ کے صدارتی آرڈیننس کو معطل کرتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ سات مسلم ممالک کے شہریوں کو روکنے کا حکم نامہ معطل رکھا جائے اور حکم نامے کا اطلاق امریکا بھر میں ہوگا۔ جس کے بعد عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ نے سات اسلامی ممالک کے شہریوں پر عائد ویزا منسوخی کا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے امریکی عہدیداروں نے ان ممالک کے مسافروں کو ملک آنے کی اجازت دینا شروع کر دی ہے جبکہ ائیر فرانس اور برٹش ائیرویز سمیت دیگر بڑی فضائی کمپنیوں نے بھی ان سات ممالک کے مسافروں کو اپنے جہازوں پر سفر کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
یہ بات ٹرمپ کو بہت ناگوار گذری اورانہوں نے صدارتی حکم نامہ معطل کرنے والے وفاقی جج جمیز رابرٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مضحکہ خیز قرار دیا اور اپنے پیغام میں کہا کہ ہمارے ملک کا کیا ہو گا جب ایک جج ہوم لینڈ سکیورٹی کے سفری پابندی کے فیصلے کو روک دے، اس فیصلے کے بعد بہت سے خطرناک لوگ مذموم عزائم کے ساتھ ہمارے ملک میں داخل ہو سکتے ہیں - اسی لئے ٹرمپ انتظامیہ نے وفاقی عدالت سے اس پر نظرثانی کی درخواست کی - لیکن اس عدالت نے ٹرمپ کی درخواست مسترد کردی- البتہ وفاقی عدالت امریکی حکومت کی درخواست کا جائزہ لے رہی ہے- اس مسئلے کی حساسیت کے پیش نظر امریکہ کی سابق حکومت کے حکام اس وقت سیاٹل کی وفاقی عدالت کے جج کے فیصلے کو منسوخ ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں- اسی سلسلے میں امریکہ کی ڈموکریٹک پارٹی کے سینئر اراکین منجملہ سابق وزیر خارجہ جان کیری اور بش حکومت کی وزیر خارجہ میڈلین آلبرائٹ اور امریکہ کے سابق صدر کے بعض مشیروں نے سیاٹل کے جج کے فیصلے کو منسوخ ہونے سے روکنے کے لئے ایک خط، فیڈرل اپیل کورٹ کو ارسال کیا ہے-
اس دستاویز پر دستخط کرنے والوں میں اوباما حکومت میں قومی سلامتی کے امور کی مشیر سوزان رائس ، سابق وزیردفاع اور سی آئی اے کے سابق چیف لئون پنیٹا بھی شامل ہیں- ان افراد نے اعلان کیا ہے کہ ٹرمپ کے اس فرمان سے، امریکہ کی قومی سلامتی مستحکم ہونے کے بجائے کمزور ہوجائے گی اور ساتھ ہی مشرق وسطی میں موجود امریکی فوجیوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے گا - امریکی عدالت کے نام ان شخصیتوں کی قانونی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس فرمان سے ان عراقیوں کے لئے توہین آمیز پیغام جاتا ہے جو داعش کے خلاف جنگ میں امریکی فوجیوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں- امریکی صدر کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات اور فیصلوں پرعالمی سطح پر زبردست رد عمل سامنے آیا ہے اورامریکہ سمیت کئی ممالک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ٹرمپ کے پتلے نذر آتش کئے گئے۔