امریکہ سے مذاکرات لاحاصل/ یورینیم کی افزودگی روکنے کا سوال نہیں/ امریکی حکام اوقات میں رہ کر بات کریں: رہبر انقلاب اسلامی
منگل 23 ستمبر کو رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے علاقائی حالات، ایران کے ایٹمی پروگرام اور امریکہ سے مذاکرات کے دعووں کے سلسلے میں کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی۔
سحرنیوز/ایران: رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقریر کی ابتدا میں ایران پر صیہونی حکومت کی مسلط کردہ جنگ کے فورا بعد ہی ایران کے نوجوانوں کے ہاتھوں سائنس اور اسپورٹس کے میدان میں بڑی کامیابیوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ 12 روزہ جنگ کے چند ہی ہفتوں کے اندر سائنسی اولمپیاڈ میں 40 سے زیادہ میڈل حاصل ہوئے اور اسپورٹس کے میدان میں بھی ایرانی کھلاڑیوں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
آپ نے اس موقع پر حزب اللہ لبنان کے مجاہد کبیر سید حسن نصراللہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایک عظیم ثروت تھے، نہ صرف تشیع اور لبنان کے لیے بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شہید سید حسن نصراللہ کو ایسی ثروت قرار دیا جو نہ صرف شہادت کے بعد ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کے اثرات اب بھی جاری ہیں۔
آپ نے حزب اللہ لبنان اور اس کے ہتھیار کو سید حسن نصراللہ کی میراث قرار دیا جو لبنان اور عالم اسلام کے لیے ثروت کی حیثیت رکھتا ہے۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس موقع پر تین انتہائی اہم موضوعات پر گفتگو کو اپنے خطاب کا مقصد قرار دیا۔ آّپ نے سب سے پہلے ایرانی عوام کے اتحاد پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ ایرانی عوام کے اتحاد نے دشمنوں کو ناامید کردیا۔
آپ نے فرمایا کہ دشمنوں کا مقصد صرف فوجی قیادت کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ حملے کے بعد عوام کو سڑک پر کھینچنا اور پھر بلوائی عناصر کے ذریعے تباہی پھیلا کر اسلام اور اسلامی نظام کو ختم اور ملک کا حصہ بخرہ کرنے کو دشمنوں کی پلاننگ کا حصہ قرار دیا۔
آپ نے زور دیکر فرمایا کہ یہ مقصد پہلے ہی قدم میں شکست سے دوچار ہوگیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ شہید کمانڈروں کی جگہ پر بھی فوری طور پر نئے کمانڈروں منصوب کردیے گئے جس کے نتیجے میں مسلح افواج پوری طاقت اور مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھیں۔
آپ نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ عوام نے دشمنوں کے مطالبے کو ٹھکرا دیا اور دشمنوں کے توقع کے برخلاف اسلامی نظام کے خلاف نہیں بلکہ اسرائیل اور امریکہ کی جارحیت کے خلاف ملک بھر میں وسیع مظاہرے ہوئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جنگ کے بعد دشمنوں نے اپنے کارندوں سے کہا کہ تم نالائق ہو جو ہمارے حملوں اور ماحول فراہم کرنے کے باوجود کچھ نہ کرسکے تو ان غدار عناصر نے کہا کہ ہم نے کوشش کی لیکن عوام نے ساتھ نہیں دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر فرمایا کہ ایران میں اتحاد اور یکجہتی کو ذرہ برابر ٹھیس نہ پہنچی ہے نہ پہنچے گی۔
آپ نے کہا کہ کچھ لوگ جنہیں ملک سے باہر سے احکامات ملتے ہیں، یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ایران کا انقلاب دوسرے انقلابوں کی طرح کمزور ہوچکا ہے اور پھر قومیتوں میں اختلاف ڈال کر ملک کو تباہی کی جانب لے جانا چاہتے ہیں لیکن ایرانی عوام ایک مٹھی بن کر بدستور دشمنوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں جس طرح صیہونی دشمن کے سامنے ڈٹے رہے۔
آپ نے یورینیم کی افزودگی کے موضوع کو اپنے خطاب کا دوسرا حصہ قرار دیا اور فرمایا کہ افزودگی کا لفظ جو مسلسل دوہرایا جا رہا ہے، وہ ایک لفظ ضرور ہے لیکن یہ موضوع ایک کتاب جتنا پھیلا ہوا ہے۔
آّپ نے یورینیم کی افزودگی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ یورینیم کے کان ایران میں موجود ہیں اور ایرانی ماہرین اور سائنسدانوں نے مغربی ممالک اور دشمنوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ایک پیچیدہ سلسلے اور ٹیکنالوجی کے تحت اور معیاری سائنسی مہارتوں کے ساتھ حاصل کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی توانائی اورافزودہ یورینیم کو عوام کی زندگی کے مختلف حصوں کا اہم جز قرار دیا۔
آّپ نے فرمایا کہ ایٹمی توانائی اور افزودہ یورینیم زراعت، صنعت، غذا، ماحولیات اور جنگلات، سائنسی تعلیم، تحقیقات نیز بجلی کی پیداوار میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔
رہبر انقلاب نے فرمایا کہ ملک کے ذمہ دار منتظمین اور عالی شان سائنسدانوں نے یہ سلسلہ شروع کیا اور اسے یہاں تک پہنچا دیا کہ ہم اس ٹیکنالوجی کی اونچائی پر کھڑے ہیں اور اب ایران کا شمار دنیا کے ان 10 ملکوں میں ہوتا ہے جو افزودگی کی ٹیکنالوجی کے مالک ہیں۔
آپ نے اس موقع پر زور دیکر کہا کہ جو ممالک ایٹمی ہتھیار بناتے ہیں وہ 90 فیصد تک یورینیم افزودہ کرتے ہیں لیکن کیونکہ ہم ایٹمی ہتھیار بنانا نہیں چاہتے اور اس نوعیت کے ہتھیار ہماری پالیسی کا حصہ نہیں ہے لہذا ہم اپنی پرامن ضرورتوں کے مطابق 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج دسیوں سائنسدان اور اونچے پائے کے پروفیسر، سیکڑوں محققین اور ہزاروں طلبا ملک کے مختلف تحقیقاتی، سائنسی اور صنعت مراکز میں ایٹمی سائنس کے مختلف شعبوں میں ملک کو ترقی سے ہم کنار کر رہے ہیں۔
آپ نے ایٹمی سائنسدانوں اور ایٹمی مراکز پر صیہونی حکومت اور امریکہ کے حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اب اگر کچھ مراکز پر بمباری بھی کرلی گئی تو اس سے سائنسی ترقی بالخصوص ایٹمی شعبے میں اقدامات کو روکا نہیں جاسکتا۔
آپ نے فرمایا کہ ایران پر دباؤ کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دوٹوک الفاظ میں بیان کیا کہ ایران نے دباؤ کے سامنے نہ سر خم کیا ہے نہ کبھی کرے گا اور یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی توانائی کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کو ایرانی عوام کا جواب منہ توڑ ہوگا۔
آپ نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو ناممکن قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایسے کسی بھی مذاکرات کا ایران کے لیے نہ صرف کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ اس کے متعدد نقصانات بھی ہیں جن میں سے بعض نقصانات ناقابل تلافی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی فریق مذاکرات کے نتائج پہلے سے طے کر لیتا ہے، یعنی وہ ایسے مذاکرات چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ایران میں ایٹمی پروگرام اور یورینیم کی افزودگی بند بلکہ ختم ہوجائے۔
آپ نے فرمایا کہ امریکہ مذاکرات اسی وقت چاہتا ہے جب اس کے نتائج صرف اس کی مرضی کے مطابق ہوں، حالانکہ ایسی بات چیت، مذاکرات نہیں ڈکٹیشن ہے۔
قائد انقلاب نے فرمایا کہ امریکی نائب صدر نے دعوی کیا ہے کہ ایران کے پاس میزائل تک نہیں ہونا چاہیے۔
آپ نے فرمایا کہ:"یعنی بات صرف طویل المسافت میزائل کی نہیں بلکہ اوسط دوری اور کم دوری کی میزائلوں کی بھی ہے۔ ایسے مذاکرات نقصان دہ ہیں۔
جب کوئی ایسے دعوے کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایرانی عوام اور ایران کے انقلاب اور اس کے مقصد سے ناآگاہ ہے۔"
آپ نے امریکہ کی ان بیان بازیوں کو اوقات سے بڑھ کر بات کرنا قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ہم نے دباؤ میں آکر امریکہ کی بات مان لی تو یہ سلسلہ ایٹمی موضوع تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ہتھیاروں اور دوسرے ملکوں سے تعلقات تک آپہنچے گا، حالانکہ کوئی بھی غیرتمند عوام اور سیاستداں ایسے مطالبات کو قبول نہیں کرسکتے۔
ایران کے قومی ٹی وی چینل سے نشر ہونے والے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کی جانب سے رعایت اور وعدوں کے دعووں کو بھی جھوٹا قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایٹمی معاہدے، جے سی پی او اے میں بھی امریکہ اور مغربی ممالک نے ایسے وعدے کیے تھے حالانکہ ایران پر عائد مختلف پابندیوں کے باوجود، نہ صرف دس سال بعد ایران کا کیس آئی اے ای اے میں معمول پر نہیں آیا بلکہ ایران کو وعدہ خلافیوں اور مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
آپ نے زور دیکر کہا کہ فریق مقابل وعدہ خلافی کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، اگر اس کے بس میں ہو ہماری شخصیتوں کو شہید اور مراکز پر بمباری کرتا ہے لہذا امریکہ سے ایٹمی معاملات، حتی کہ دیگر معاملات میں گفتگو ناممکن ہے کیونکہ اس کا فائدہ صرف امریکہ کو ہی ملے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں سائنسی، فوجی اور انتظامی امور میں ملک کو طاقتور بنانے کو لازمی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ دھونس دھمکیوں کو دور کرنے کا واحد طریقہ ہے کیونکہ جب طاقتور بنیں گے تب ہی جاکر دشمن دھمکیوں سے باز آئے گا۔