سعودی عرب میں ایذاؤں میں شدت پر عالمی سطح پر تشویش
سعودی عرب میں آل سعود کے تشدد آمیز اقدامات اور سرکوبی کا سلسلہ جاری رہنے کے ساتھ ہی ہیومن رائٹس واچ نے سیاسی سرگرم کارکنوں کے تعلق سے سعودی عرب کے رویے پر تشویش ظاہر کی ہے-
ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطی شعبے کی ڈائریکٹر سارا لی ویٹسن نے کہا ہے کہ سعودی عرب اس کوشش میں ہے کہ ہر اس شخص کو جو اس کی پالیسیوں کو نہ مانے، اس کو خاموش کردے یا گرفتار کرلے- ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں سعودی عرب کے 39 سالہ قلمکار " نظیر الماجد" کا بھی ذکر کیا ہے، جن پر اٹھارہ جنوری کو آل سعود مخالف مظاہروں میں شرکت کے سبب، سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے اور سات سال ملک سے نکلنے پر پابندی بھی عائد کردی گئی ہے-
سعودی حکام اپنے مخالفین کو خاموش کرنے کے لئے یا انہیں قتل کر دیتے ہیں یا پھر لمبی مدت تک جیلوں میں رکھتے ہیں - یہ حکام رعب و وحشت کے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ گھٹن کا ماحول پیدا کریں تاکہ کسی میں آل سعود حکومت کے خلاف کھل کر کچھ کہنے کی جرات نہ ہوسکے- سعودی عرب ، اظہار رائے اور آزادی بیان کے معیارات کے لحاظ سے بدترین ملکوں میں شامل ہے- اس وقت اس ملک میں انسانی حقوق کے دفاع کرنے والوں اور سرگرم کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ، اپنے عقائد کے اظہار کے سبب جیلوں میں زندگی گذار رہی ہے- سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں کی تعداد اس وقت تیس ہزار تک پہنچ گئی ہے اور ان اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ آل سعود کی ڈکٹیٹر حکومت کی سرکوب کرنے والی پالیسیاں کس حد تک ظالمانہ اور سفاکانہ ہیں- سعودی حکام کی جانب سے اس ملک کی سیاسی اور سماجی فضا کو ماضی سے زیادہ محدود اور بلاک کرنے اور شہری حقوق کو پامال کئے جانے کے فیصلوں اورتدابیر نے، اس حکومت کی ظالمانہ ماہیت کو ماضی سے زیادہ آشکارہ کردیا ہے- آل سعود کا حکومتی سسٹم موروثی ہے اور اس ملک کے عوام کو اپنے ملک کا نظم ونسق چلانے یا قانون سازی میں کسی قسم کی مشارکت یا کردار ادا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی عرب میں جمہوریت کی علامتیں جیسے انتخابات ، مختلف سیاسی پارٹیوں اور پریس ریلیز کا وجود نہیں ہے-
آل سعود کی انسانیت سوز پالیسیوں کی اقوام متحدہ کی جانب سے حمایت اس بات کا باعث بنی ہے کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا دائرہ مزید وسعت اختیار کرجائے- قانونی ماہرین نے آل سعود کی جانب سے عوام کےخلاف دائر کئے گئے مقدمات کے بے بنیاد ہونے اور اس ملک کی عدالتوں کے فیصلوں میں عدل و انصاف کے فقدان پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملک کا ڈھانچہ بھی داعش دہشت گرد گروہ جیسا ہی ہے اور تشدد اور شقی القلبی ، ایسے ہی ڈھانچے کا نتیجہ ہے-
قانونی حلقوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ سعودی عرب کی عدالتیں انصاف کرنے کے بجائے اور شرعی و قانونی اصولوں کو مدنظر رکھے بغیر اپنے مخالفین پر مقدمہ چلاتیں اور ان کو لمبی مدت تک جیلوں میں رکھتی ہیں، اس بات پر تاکید کی کہ عدلیہ کی جانب سے عائد کی گئیں حدیں اور اس کے فیصلے ، سب سے آسان اور رائج فیصلے ہیں کہ جنہیں سعودی ججز صادر کرتے ہیں - ان حالات میں آل سعود حکومت کی کوشش ہے کہ اپنے شہریوں کو سختی سے کچلنے کے ذریعے، اپنی ظالمانہ حکومت کی بقا کے لئے حالات فراہم کرے- لیکن آل سعود حکومت اپنے مخالفین کے خلاف جتنا سخت رویہ اپنا رہی ہے ، ہر روز سعودی معاشرے میں انصاف پسندی پر مبنی نظریات نفوذ پیدا کر رہے ہیں جو اس بات کے آئینہ دار ہیں کہ آل سعود حکومت ، سعودی عوام میں رعب و دہشت پھیلانے کے باوجود اس ملک کے عوام اور عوامی تحریک کے قائدین کو خاموش رہنے پر مجبور نہیں کرسکی ہے-
آل سعود کی سرکچلنے والی پالیسیوں کے جاری رہنے اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں اور مراکز کے صلاح و مشورے سے سعودی حکومت کی بے توجہی نے اس ملک کے حکام کو ایک ایسی راہ پر گامزن کردیا ہے جس کو اس سے پہلے لیبیا کے ڈکٹیر معمر قذافی اور تیونس کے زین العابدین بن علی طے کرچکے ہیں-