امریکہ کی صیہونیت نوازی
امریکی حکومت نے ایک بار پھر صیہونی حکومت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ کے نائب صدر مائک پینس نے امریکہ میں صیہونی حکومت کی سب سے بڑی لابی ایپیک میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر دنیا کچھ بھی نہیں جانتی تو یہ جان لے گی کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے صیہونیوں کی نہایت بااثر لابی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نہایت سنجیدگی سے امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں۔
واشنگٹن میں صیہونی لابی ایپیک کی سالانہ نشست امریکی اور غیر امریکی سیاسی شخصیتوں کے لئے ایک اچھا موقع ہوتی ہے تا کہ وہ عالمی صیہونزم سے اپنی بے چون و چرا وفاداری کا اعلان کرسکیں۔ اس نشست میں مقررین مختلف طریقوں سے اسرائیل کی حمایت کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لےجانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس قانون شکن، قاتل اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والی حکومت کو اس کے جرائم میں مدد دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس درمیان امریکی حکومت کے اعلی حکام، خواہ وہ ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹ، کے بیانات سے مشرقی وسطی اور اسرائیل - فلسطین کے مسئلے کے بارے میں امریکی حکومت کے موقف کا اظہار ہوتا ہے۔
اس مرتبہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کی نئی حکومت کی تشکیل کے ابتدائی مہینوں میں ہی صیہونیوں کو ایک بار پھر موقع مل گیا ہے کہ وہ امریکہ کی حمایت کے جاری رہنے سے اطمینان حاصل کرلیں۔ امریکہ کے نائب صدر نے ٹھوس الفاظ میں اسرائیل کو امریکی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ مائک پینس نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کے مطابق شہر بیت المقدس کا تعلق فلسطینیوں سے ہے اور غاصب صیہونی حکومت کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ سیاسی لحاظ سے اس شہر میں تبدیلی لائے۔ سلامتی کونسل کے اسی فیصلے کی وجہ سے اب تک امریکی حکومتیں، کانگریس کی اجازت کے باوجود بیت المقدس سفارتخانہ منتقل کرنے سے پرہیز کرتی رہی ہیں۔ البتہ ٹرمپ حکومت نے مشرق وسطی کے تعلق سے واشنگٹن کی روایتی پالیسیوں میں تبدیلیاں لاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ کے سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرے گی۔
اس حکومت نے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کے عمل کے جاری رہنے کے کٹر حامی ڈیوڈ فریڈمین کو اسرائیل میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا ہے تاکہ اسرائیل کی کٹر سیاسی پارٹیوں کی حمایت کا اعلان کرسکے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ حکومت، کہ جس کا شیوہ شوروغل مچانا ہے، اپنی اس پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے تل ابیب سے بیت المقدس اپنا سفارتخانہ منتقل کرکے عالم اسلام کے بحرانی حالات کو مزید بحرانی بنانا چاہتی ہے۔ فلسطین کی آزاد ریاست کے دارالحکومت کی حیثیت سے بیت المقدس، عالم اسلام بلکہ امریکہ سے قریب بعض عرب حکومتوں کی بھی ریڈ لائن شمار ہوتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر ٹرمپ حکومت امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے وعدے پر عمل کرتی ہے تو فلسطین میں نہ صرف امن قائم کرنے کا موقع ہاتھ سے چلا جائے گا بلکہ مشرق وسطی کے دیگر علاقوں میں بھی جنگ کی آگ پھیل جائے گی۔