Mar ۲۹, ۲۰۱۷ ۱۵:۲۳ Asia/Tehran
  • یورپی یونین کے خلاف ترکی کے الزامات کا اعادہ

انقرہ کی حکومت نے ایک بار پھر یورپی حکومتوں پر ترکی کے داخلی امور میں مداخلت کا الزام لگایا ہے۔

ترکی کے وزیر اعظم بن علی ییلدریم نے اپنے ملک کے داخلی امور میں یورپی یونین کی مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ جب ترکی جمہوری نظام کے حصول کی راہ میں آگے کی سمت قدم بڑھا رہا ہے تو انقرہ حکومت کے خلاف، یورپی یونین کے حکام کے نسل پرستانہ بیانات میں اضافہ ہو رہا ہے- ارنا کی رپورٹ کے مطابق بن علی ییلدریم نے اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہ یورپی یونین کے حکام آئین میں تبدیلی سے متعلق ریفرنڈم کے مسئلے میں مداخلت کر رہے ہیں کہا کہ یورپ میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ دشمنی میں اضافہ ہو رہا ہے- ماہرین کا خیال ہے کہ رجب طیب اردوغان کی قیادت میں ترکی کی حکمراں انصا ف و ترقی پارٹی نے گذشتہ ایک عشرے کے دوران کئی بنیادی غلطیاں کی ہیں-

رجب طیب اردوغان نے نامناسب اقدامات کرتے ہوئے مخالفین کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں انجام دیں ، اقتدار پر اجارہ داری کے مقصد سے آئین میں اصلاحات انجام دینے کی کوشش کی اور اسی طرح غیر ملکی پروگراموں پر عملدرآمد کیا، جس کے باعث حکمراں جماعت انصاف و ترقی پارٹی کی حیثیت  داؤ پر لگ گئی ہے- خیال رہے کہ ترکی میں الیکشن کمیشن نے سولہ اپریل کو ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اس ریفرنڈم میں ترک عوام ملک میں پارلیمانی نظام ختم کر کے صدارتی نظام نافذ کرنے سے متعلق فیصلہ دیں گے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ ترکی میں ہونے والے سروے اس بات کے غماز ہیں کہ عوام آئین کی اصلاح  میں تبدیلی کے مخالف ہیں اور ان مخالفتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اس سلسلے میں کہا جا سکتا ہے کہ ترکی کی حکمراں انصاف و ترقی پارٹی نے ملک کے اندرصرف وہی پالیسیاں اختیار کی ہیں کہ جن کے ذریعے اردوغان مطلق العنان حکمراں بن سکیں -

یہ پالیسیاں ابتدا میں مخالفین خاص طورپر ترکی کے کردوں کی گرفتاری سے شروع ہوئی اور اب یہی پالیسیاں ترکی کے آئین میں تبدیلی پر منتج ہوئی ہیں - ترکی کی حکمراں پارٹی یہ چاہتی ہے کہ ملک کے بنیادی آئین کی اٹھارہ شقوں میں اصلاح کرکے ترکی کے سیاسی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کردیں- اس سلسلے میں ترکی کے آئین کی دیگر شقوں میں سے دو شقوں پر زیاد توجہ دی گئی ہے اول تو یہ کہ ترکی کا نظام، پارلیمانی سے صدارتی نظام میں تبدیل کردیا جائے اور دوم یہ کہ اس کے بعد اب جو بھی اقتدار میں آئے گا وہ ہٹایا نہیں جائے گا اور ممکن ہے تاعمر اقتدار پر براجمان رہے اور اپنی سیاسی سرگرمیاں انجام دے- یہی سبب ہے کہ اندرون ملک مخالفتوں کے علاوہ مغربی حکومتیں بھی انقرہ حکومت کی ان پالیسیوں کو باہمی تعاون کے منافی سمجھ رہی ہیں-

واضح رہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوغان ملک میں موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام ختم کر کے صدارتی جمہوری نظام قائم کرنے کی خواہش کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اردوغان کا یہاں تک کہنا ہے کہ ترکی کے سیاسی نظام کی مخالفت کرنے والے ترکی کے دشمن ہیں- گذشتہ عشروں کے دوران یورپی یونین کے ساتھ ترکی کے اختلافات کے علاوہ حالیہ دنوں میں بھی انقرہ حکومت کی بعض پالیسیوں کے سبب دونوں فریق میں اختلافات میں شدت آئی ہے- ترکی کی حکومت اور یورپی ملکوں خاص طور پر جرمنی ، آسٹریا اور ہالینڈ کے درمیان اختلافات اس وقت شدت اختیار کرگئے جب ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو عوامی اجتماع سے خطاب کیلئے ہالینڈ پہنچے تو ان کے طیارے کو روٹرڈیم میں لینڈنگ کی اجازت نہ ملی جس پر ترک شہری مشتعل ہو گئے اور انہوں نے روٹریڈیم سمیت ہالینڈ کے مختلف شہروں میں شدید احتجاج کیا۔

ترک وزیر خارجہ کو ، روٹریڈیم میں داخل ہونے سے روکنے پر ترک صدر طیب اردوغان نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ہالینڈ کی حکومت کو نازیوں کی باقیات قرار دیا جس کے بعد انقرہ میں ہالینڈ کے سفارتخانے کو سیل کر دیا گیا۔  ترکی میں اگلے ماہ ہونے والے آئینی ریفرینڈم کے لیے سیاسی مہم جرمنی اور ہالینڈ میں بھی چلائی جا رہی ہے۔ اس مسئلے پر پہلے ترکی اور جرمنی کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی اور اب ہالینڈ اور ترکی کے تعلقات بھی تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ بعض یورپی حکام نے گذشتہ ہفتوں کے دوران اردوغان کو ڈکٹیٹر خطاب کیا ہے- درحقیقت کہا جاسکتا ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ ترکی کے حالیہ اختلافات کا، اس یونین میں ترکی کی شمولیت سے متعلق دوطرفہ اختلافات سے کوئی ربط نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف ، صرف اردوغان کی مطلق العنان حکمرانی کے حصول کی مخالفت کے سبب ہے۔

ٹیگس