عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کا اختتام، عرب ملکوں کے درمیان اختلافات آشکار
عرب لیگ کا اٹھائیسواں سربراہی اجلاس ایسی حالت میں اختتام پذیر ہوا ہے کہ اس اجلاس میں عرب ملکوں کے درمیان اختلافات بہت واضح تھے-
عرب لیگ کا اٹھائیسواں سربراہی اجلاس گزشتہ روز انتیس مارچ کو بحرالمیت یا بحیرہ مردار میں اختتام پذیر ہوگیا۔ اس اجلاس کی سربراہی اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم کر رہے تھے اس سے قبل عرب لیگ کا سربراہ، افریقی ملک موریتانیہ تھا- عرب لیگ کے اس اختتامی بیان میں شام ، فلسطین، عراق اور اسی طرح اسرائیل کے ساتھ بات چیت اور تعاون کی جانب اشارہ کیا گیا ہے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس اختتامی بیان میں عرب سربراہوں کی پالیسیوں اور طرز عمل کے درمیان اختلافات آشکارہ تھے جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عالم عرب میں Institutionalism کا تجربہ شکست خوردہ ہے- عالم عرب اس وقت یہ مشاہدہ کر رہا ہے کہ دنیا کے اہم ترین بحران اس وقت عالم عرب میں جاری ہیں- بلا شبہ شام ، عراق ، یمن ، لیبیا، اور سوڈان کے بحران اور مجموعی طور پر دہشت گردی کی لعنت اور داخلی جنگ، دنیا کا اہم ترین بحران ہیں- ان بحرانوں کے اب تک اہم نتائج بھی سامنے آئے ہیں کہ جو دنیا کے اہم مسائل میں تبدیل ہوگئے ہیں اور ان میں سے ایک پناہ گزینوں کا بحران ہے-
عرب لیگ نے گزشتہ روز اپنے اجلاس میں شام کے بحران کے بارے میں اس مسئلے پر تاکید کی کہ شام کے بحران کو صرف سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ شام کے بحران کے لئے سیاسی راہ حل کے حصول میں اہم ترین رکاوٹ ، عرب لیگ کے بااثر ممبر ممالک اور بالخصوص سعودی عرب ہے جو دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر رہا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ شام کی حکومت کا تختہ پلٹ دیں-
عراق کے بحران کے سلسلے میں بھی ، دہشت گردی سے مقابلے کے لئے عراق کی حکومت کی حمایت کی ضرورت پر تاکید کی گئی جبکہ عراقی حکام نے بارہا اعلان کیا ہے کہ بعض عرب ممالک داعش دہشت گردوں کے اصلی حامی ہیں-عرب لیگ کے اٹھائیسیوں اختتامی بیان میں فلسطین کے عوام کے حقوق خاص طور پر فلسطینیوں کی سرنوشت کے تعین کے حق اور آزاد فلسطینی مملکت کے قیام پر بھی تاکید کی گئی ہے لیکن ساتھ ہی صیہونی حکومت کے ساتھ تاریخی مصالحت کی بھی بات کہی گئی ہے-
اگرچہ یہ مصالحت 1967 کے مقبوضہ علاقوں سے اسرائیل کی پسپائی سے مشروط ہے تاہم خود اسرائیلی بھی یہ جانتے ہیں کہ یہ شرط بھی رائے عامہ کو فریب دینے کے لئے اختتامی بیان میں رکھی گئی ہے- عرب ملکوں خاص طور پر سعودی عرب ، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے دعویداروں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات، مغرب خاص طور پر امریکی ڈکٹیشن کے زیر اثر، اب خفیہ حالت سے نکل کر آشکارہ ہوچکے ہیں اور فلسطین کا مسئلہ کنارے لگا دیا گیا ہے- عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں ایسے میں علاقائی بحرانوں منجملہ بحران یمن کے حل پر تاکید کی گئی ہے کہ ہر مسئلے سے زیادہ اس مسئلے میں عرب لیگ میں موجود اختلافات آشکارہ ہوگئے اس لئے کہ یمن کا بحران، اس ملک کے خلاف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جنگ کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے-
ان تمام تضادات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عالم عرب کا اداروں کے توسط سے کسی مسئلے کو حل کرنا ایک ناکام تجربہ رہا ہے اور عرب لیگ بھی ان ہی غیر مفید اداروں میں سے ایک ہے کہ جس کے سالانہ اختتامی بیانات میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ہے اس لئے یہ بات ابھی سے ہی کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ اجلاس کے بیان کا محور کیا ہوگا - واضح رہے کہ آئندہ اجلاس متحدہ عرب امارات میں ہونا طے پایا ہے- ان حالات کے پیش نظرالجزائر کے پارلیمنٹ اسپیکر عبدالقادر بن صالح نے اردن میں عرب لیگ کے اٹھائیسویں سربراہی اجلاس میں ، عرب لیگ کے ڈھانچے میں اصلاح کا مطالبہ کیا ہے-