May ۱۸, ۲۰۱۷ ۱۷:۲۹ Asia/Tehran
  • اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف سعودی عرب کے بے بنیاد الزامات کا ہدف

اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے نمائندہ دفتر نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے سربراہ کے نام ایک خط ارسال کر کے ایران پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی، دہشت گردی کی حمایت اور خطے کے امن کے لئے خطرہ پیدا کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔

اس خط کا متن کل سترہ مئی کو بدھ کے دن شائع کیا گیا۔ اس خط میں ایران پر یمن کے داخلی امور میں مداخلت کرنے، سعودی عرب کی سلامتی کے لئے خطرہ پیدا کرنے اور عراق میں قبائلی عسکری گروہوں کی حمایت کرنے کےالزامات عائد کئے گئے ہیں۔ سعودی عرب نے حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنےکا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ ایران اپنے اقدامات کے ذریعے  بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتا اور انسانیت مخالف مظالم کا سبب بنتا ہے۔ اس خط میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو دنیا میں انتہا پسندانہ آئیڈیالوجی اور دہشت گردی پھیلانے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے نمائندہ دفتر کے خط میں، کہ جو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے، ایران پر جو جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں وہ سعودی عرب کی چند برس کی کارکردگی کا مرقع ہے۔ لیکن ریاض کے حکام اپنی کارکردگی کا جواب دینے کے بجائے خطے کی موجودہ صورتحال کا ذمےدار ایران کو قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس خط میں جن امور کا دعوی کیا گیا ہے وہ درحقیقت خطے میں سعودی عرب کی جارحانہ آئیڈیالوجی اور اسٹریٹیجی کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ محمد بن سلمان نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بدامنی اور جنگ کا دائرہ ایران کی سرحدوں کے اندر تک پھیلا دیا جانا چاہئے۔ ان بیانات سے سعودی عرب کی حقیقی ماہیت کی نشاندہی ہوگئی ہے۔ خطے کے دوسرے حقائق اور ناقابل انکار حقیقت سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ سعودی عرب یمن میں ہزاروں عام شہریوں، خواتین اور بچوں کے قتل عام کا ذمےدار ہے۔

سعودی عرب نے یمن کے محاصرے ، فاسفورس بموں کے ساتھ اس ملک کے عوام کے قتل عام، قحط مسلط کرنے اور خطرناک بیماریوں میں اس ملک کے عوام کو مبتلا کرنے کے ذریعے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے اور صیہونی حکومت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ سعودی عرب نے اپنے فوجی بحرین بھیج  کر، یمن پر حملہ اور سوڈان اور نائیجیریا  کے داخلی امور میں مداخلت کر کے ثابت کر دیا ہے  کہ وہ خطے کی جیو پولیٹیکل تبدیلی کے درپے ہے۔ پاکستان، افغانستان، وسطی ایشیا اور قفقاز کے ملکوں کے داخلی امور میں سعودی عرب کی مداخلت نظر آتی ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں منجملہ متحدہ عرب امارات کے درمیان اختلافات پیدا ہوچکے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ریاض کے حکام اپنی پالیسیوں کو منطقی ظاہر کرنے پر اصرار اور سعودی عرب کو ملت اسلامیہ کے حقوق کا محافظ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب خطے میں جو اقدامات انجام دے رہا ہے وہ درحقیقت صیہونی حکومت کی خدمت کے زمرے میں آتے ہیں۔ سعودی حکام نے امریکہ اور برطانیہ کو خطے میں آنے کی دعوت دینے، فوجی معاہدے کرنے اور اربوں ڈالر مالیت کے ہتھیار خریدنے کے ذریعے اس عمل میں تیزی پیدا کی ہے۔

ان تمام امور کے پیش نظر بجاطور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے نمائندہ دفتر کی جانب سے ایران پر بے بنیاد الزامات لگائے جانے کا ہدف سعودی حکومت کے ان جارحانہ اقدامات پر پردہ ڈالنا ہے جو اسلامی ممالک میں انتہا پسندی، دہشت گردی، اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کا سبب بنے ہیں۔ البتہ ریاض کے حکام دوسروں پر بے بنیاد الزامات لگا کر ہمیشہ کے لئے نہ تو خطے کی اقوام کی بیداری کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں اور نہ ہی حالات کا رخ موڑ سکتے ہیں ۔

ٹیگس