ریاض میں امریکہ اور سعودی عرب کے مذاکرات کا محور، ایران کے خلاف الزام تراشی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیرونی ممالک کے اپنے پہلے دورے کا آغاز ایک ایسے ملک سے کیا ہے جس کے بارے میں خود امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ شروع سے ہی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا منبع ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بیس مئی کو اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹیلرسن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ایران کے بارے میں اپنے غیر منطقی اور بے بنیاد دعووں کی تکرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں بقول ان کے ایران کے جنگ پسندانہ اقدامات کی روک تھام کے لئے کاروائی کی ضرورت ہے- امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن نے بھی ایران کے خلاف اتحاد کے لئے سعودی عرب کو نقطہ مرکزی قرار دینے کی وجہ کے بارے میں کہا کہ سعودی عرب ، ملکوں کی قیادت میں اہم رول ادا کر رہا ہے اور مجموعی طورپر دہشت گردی سے مقابلے اور خاص طور پر ایران کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کا مقابلہ کرنے کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
ایران کے خلاف ان جھوٹے اور مکر وفریب سے بھرے ہوئے خیالات کا اظہار ایسی حالت میں کیا جا رہا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب دونوں ہی علاقے میں دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے میں برابر کے شریک ہیں اور القاعدہ کو وجود میں لانے اور نائن الیون کے واقعے میں سعودی عرب کا کردار سب پر واضح ہے- اس وقت بھی امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے، شام اورعراق میں داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی حمایت جاری ہے- اس لئے اہم ترین عامل کہ جو اس اتحاد کے مضبوط اور مستحکم ہونے کا سبب بنا ہے، علاقے میں امریکہ اور سعودی عرب کے مشترکہ اہداف ہیں۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اب سعودی عرب اس کوشش میں ہے کہ کئی ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کرکے امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک رابطہ برقرار کرے اور علاقے میں اپنی بالادستی اور برتری بنائے رکھے- لیکن سعودی عرب ، امریکہ کے لئے ایک دودھ دینے والی گائے کی مانند ہے کہ جب تک دودھ دیتی رہے گی اس کا دودھ دوہتا رہے گا - یہ سعودی عرب کے بارے میں ٹرمپ کا ایک واضح ترین بیان ہے کہ جو اس نے پہلے دیا ہے اور جس سے ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کی بخوبی نشاندہی ہوتی ہے- یہ ایسے وقت میں ہے کہ خلیج فارس کے علاقے کے دیگرعرب ممالک اس سیاسی کھیل میں شامل ہونا نہیں چاہتے-
درحقیقت ان ملکوں کی سلامتی بھی، علاقے میں امریکہ اور سعودی عرب کے توسط سے بدامنی پھیلانے کے سبب خطرے میں پڑجائے گی- اس کے باوجود یہ ممالک مجبور ہیں کہ علاقے میں سعودی عرب کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کی حمایت کریں چنانچہ یہی مسئلہ اب تک ریاض اور اس کے اتحادیوں منجملہ متحدہ عرب امارات کے درمیان اختلاف کا سبب بن چکا ہے- جیسا کہ عادل الجبیر کے بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب، واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے درپے ہے تاکہ علاقے میں اپنی متزلزل پوزیشن کو باقی رکھ سکے- سعودی عرب نے اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے دیگر سودمند معاہدوں سمیت سو ارب ڈالر سے زیادہ کے ہتھیاروں کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کئےہیں کہ جو مجموعی طور پر تین سو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں- سعودی عرب ان اقدامات کی جو توجیہ پیش کر رہا ہے یہ ہے کہ اسلامی ملکوں اور مغرب کے درمیان دشمنی کا خاتمہ کرنا ہے تاکہ اس کے بقول انتہاپسندی اور جو ممالک دہشت گردی کی جڑ ہیں ان کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا جائے- لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب کو ہتھیار فروخت کرنا مشرق وسطی کو سلامتی کی ضمانت ہے- جبکہ ان ہتھیاروں کو سعودی عرب، علاقے کے ملکوں پر قبضہ کرنے اور مظلوم و بے گناہ انسانوں کی جانیں لینے کے لئے استعمال کر رہا ہے کہ جس کی آشکارہ مثال یمن ہے- اس لئے یہ بات واضح ہے کہ علاقے میں بدامنی پھیلانے میں ریاض اور واشنگٹن کے مشترکہ کردار اور کارکردگی کے پیش نظر، امن وسلامتی قائم کرنے کا ان ملکوں کا دعوی بے معنی اور کھوکھلا ہے۔
واضح ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے مدنظر مفادات ، تعمیری تعاون اور اقتصادی معاملات میں توسیع کے ذریعے حاصل نہیں ہوں گے بلکہ تفرقہ پھیلانے ، جنگیں کرانے، اور عراق ، شام اور یمن جیسے ملکوں میں عدم اعتماد اور خطروں سے بھرا ہوا ماحول اور فضا پیدا کرنے کے ذریعے ہی ان کے مفادات کو ضمانت حاصل ہوگی- اس لئے ریاض کی نظر میں ایران کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو اس کا ہم فکر بن جائے اور اس کی صف میں شامل ہوجائے- ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر ایران کی علاقائی پالیسیوں اور مواقف کی تشریح کی ہے- عربی اخبار "العربی الجدید" نے اپنے ایک مضمون میں ظریف کی اس گفتگو کو شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران ان تمام ملکوں سے جو بین الاقوامی امن و صلح کے پابند ہیں اور اسی طرح علاقے کے ملکوں اور پڑوسی ملکوں سے یہ اپیل کرتا ہے کہ وہ ان ملکوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں کہ جن کا ہدف و مقصد علاقے میں ایرانوفوبیا پھیلانا اور انسانی المیہ رونما کرنا ہے۔