داعش کے ٹھکانے پر ایرانی میزائل حملے پر نیتن یاہو کی تشویش
شام کے شہر دیر الزور میں دہشت گرد گروہ داعش کے ٹھکانے پر ایران کے اتوار کے حملے کو وسیع پیمانے پر کوریج دی گئی ہے۔ بہت سے خبری اور سیاسی حلقوں نے اس حملے کو حالیہ ایران مخالف دہشت گردانہ حملوں کا دندان شکن جواب قرار دیا ہے۔ دریں اثناء یہ حملہ دہشت گردوں کے حامیوں کے لئے بھی ایک واضح پیغام کا حامل ہے۔
اسی تناظر میں مقبوضہ فلسطین سے شائع ہونے والے اخبار یدیعوت آحارنوت نے دیر الزور میں دہشت گرد گروہ داعش کے ہیڈکوارٹر پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے درمیانے فاصلے پر مار کرنے والے چھ بیلسٹک میزائل داغے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ تقریبا چھ سو کلومیٹر کے فاصلے سے داغے جانے والے یہ میزائل ٹھیک اپنے نشانے پر جاکر لگے۔ یدیعوت آحارنوت میں مزید آیا ہے کہ ایرانیوں کی طاقت کے مظاہرے کا مقصد علاقائی اور عالمی سطح پر فوجی دفاعی صلاحیت کو ظاہرکرنا تھا۔
صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی پیر کے دن لیکوڈ پارٹی کے اجلاس کے دوران تقریر کرتے ہوئے ایران کو خبردار کیا کہ وہ اسرائیل کو دھمکی نہ دے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل ایران کی سرگرمیوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئےہے۔بنیامین نیتن یاہو کے یہ بیانات ایسے وقت سامنے آئے ہیں کہ جب ایران کا میزائل حملہ ان دہشت گردوں کے لئے ایک دندان شکن جواب تھا جو اس گمان میں مبتلا تھے کہ وہ ایران میں چھوٹے موٹے اقدامات انجام دے کر اپنی صورتحال میں بہتری پیدا کر سکتے ہیں اور دوسرے ممالک کی طرح ایران کو بدامنی کا شکار بنا سکتے ہیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ تہران نہ تو پیرس ہے اور نہ ہی لندن۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے سلسلے میں کسی طرح کی رو رعایت نہیں کرے گا اور جب بھی ضروری ہوا وہ دہشت گردوں کے اڈوں کو تباہ کر دے گا۔ اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ سیکورٹی خطرات کے مقابلے کے سلسلے میں ایران کے اقدامات اپنی سرحدوں تک محدود نہیں ہیں۔ دیر الزور اس کا صرف ایک نمونہ ہے جس کی جانب بہت سی توجہات مرکوز ہوگئی ہیں۔ فطری سی بات ہے کہ تمام دہشت گردوں کے ساتھ اسی حکمت عملی کے ساتھ نمٹا جائے گا اور دہشت گردوں کے حامیوں تک بھی یہ پیغام پہنچ چکا ہے۔ صیہونی حکام کے بیانات کا اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔ منافقین کے دہشت گـرد گروہ ایم کے او کو بھی اسی وجہ سے تشویش لاحق ہوچکی ہے۔ اس دہشت گرد گروہ نے ایک بیان جاری کرکے سپاہ پاسداران کے بیلسٹک میزائل کے تجربے، اسے داغے جانے اور اس کی تیاری کے کلیدی مراکز کے بارے میں منگل کے دن ایک کانفرنس بلانے کی خبر دی ہے۔
ان اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد اور ان کے حامی ایران کی جانب سے دہشت گردی کے سنجیدہ مقابلے کی بنا پر تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ماضی پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ دو ہزارتین میں عراق پر امریکہ کے حملے کے بعد سے خطے میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ البتہ ان برسوں کے دوران یہ بات بھی زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے کہ یہ گروہ امریکہ، برطانیہ ، صیہونی حکومت اور خطے کے بعض ممالک کے آلۂ کار ہیں۔
معروف امریکی نامہ نگار سیمور ہرش نے کچھ عرصہ قبل انکشاف کیا تھا کہ منافقین کے دہشت گرد گروہ ایم کے او کے بعض عناصر نے جارج بش کی صدارت کے زمانے میں امریکہ میں عسکری تربیت حاصل کی تھی۔
امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کا یہ واحد واقعہ نہیں ہے۔ جنداللہ نامی ایک اور دہشت گرد گروہ نے سنہ دو ہزار پندرہ کے وسط سے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا دائرہ بڑھا دیا تھا۔ اس گروہ کے سرغنے عبدالمالک ریگی کی حمایت موساد، سی آئی اے، ایم آئی سکس اور سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کرتی تھی۔ اپریل سنہ دو ہزار دس میں اسے گرفتار کیا گیا ۔
اپریل سنہ دو ہزار سات میں ای بی سی چینل نے دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکی حکومت سیستان و بلوچستان میں خفیہ طور پر دہشتگرد گروہوں کی حمایت کرتی ہے۔ریگی نے بھی اپنے اعترافات میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ امریکیوں نے اس سے کہا تھا کہ وہ تہران میں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دے۔ جلیل قنبر زہی بھی مشرقی ایران کے دہشت گرد گروہوں کا ایک سرغنہ ہے۔ جسے حالیہ چند دنوں کے دوران سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے ہلاک کر دیا ہے۔ سپاہ پاسداران کی برّی فوج کے قدس ہیڈکوارٹر کے اعلان کے مطابق جلیل قنبر زہی کو عرب ممالک سے مالی مدد ملتی تھی اور اس نے ایران پر ضرب لگانے کے لئے افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کے ساتھ متعدد بار میٹنگز کی تھیں۔ ان تمام امور کے پیش نظر یہ واضح ہوجاتا ہےکہ ایران کے جانب سے دہشت گردوں کے مقابلے اور شام کے علاقے دیر الزور میں داعش کے ہیڈکوارٹر پر ایران کے میزائل حملے سے دہشت گردوں کے حامی اس حد تک پریشان کیوں ہیں۔