شام میں امریکہ کا نیا کھیل
امریکہ نے شام کے بارے میں نیا کھیل شروع کر دیا ہے۔ دریں اثناء شام کے خبری ذرائع نے رپورٹ دی ہے کہ امریکی لڑاکا طیاروں نے ایک بار پھر مشرقی شام میں واقع علاقے دیرالزور میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے میں دسیوں افراد خاک و خون میں غلطاں ہوگئے ہیں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں ۔
امریکی لڑاکا طیاروں نے بدھ کے دن مشرقی دیر الزور میں واقع الدبلان نامی دیہات پر متعدد مرتبہ بمباری کی جس کے نتیجے میں کم از کم چالیس عام شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ منگل کے دن بھی امریکی لڑاکا طیاروں نے صوبہ دیر الزور میں واقع المیادین کےعلاقے پر حملہ کیا۔ اس حملے میں بیالیس عام شہری موت کے منہ میں چلے گئے۔ امریکی اتحاد داعش کے مقابلے کے بہانے اگست سنہ دو ہزار چودہ سے اس طرح کے حملے کرتا چلا آرہا ہے اور اس سلسلے میں نہ تو اس نے اقوام متحدہ سے اجازت حاصل کی ہے اور نہ ہی شام کی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کی ہے۔
امریکی اتحاد کے اقدامات دہشت گرد گروہ داعش کو اپنے قابو میں رکھنے اور اسے اپنے مقاصد کے لئے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنے کے تناظر میں انجام پاتے ہیں اور شام میں امریکی اتحاد کے حملے اس ملک میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ اگرچہ امریکی اتحاد نے دہشت گرد گروہ داعش کے مقابلے کی پالیسی کا اعلان کر رکھا ہے لیکن اس اتحاد کے اقدامات عملی طور پر دہشت گردی کا صحیح معنوں میں مقابلہ کرنے والے اتحاد کو کمزور کرنے پر استوار رہے ہیں۔ شامی فوجیوں اور اس ملک کے اتحادیوں کو نشانہ بنانا ، کہ جو دہشت گردی کے مقابلے کی فرنٹ لائن پر موجود ہیں، دہشت گردوں اور امریکہ کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے حوصلے بلند ہونے کا سبب ہے اور یہی گروہ بوقت ضرورت امریکہ کے سیاسی کھیل کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے شام کے سلسلے میں جو نیا سناریو شروع کیا ہے اس سے شام کے صوبۂ ادلب میں واقع خان شیخون کے علاقے پر چار اپریل سنہ دو ہزار سترہ میں کیمیاوی حملے پر مبنی اس کے دعوے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ امریکہ نے اس حملے کا دعوی کیا لیکن آج تک اس حملے کے بارے میں تحقیقات انجام نہیں دی گئی ہیں۔ امریکہ کے جنگ پسند اور مہم جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے سات اپریل کو الشعیرات ایئربیس پر حملے کا حکم دے دیا تھا۔ الشعیرات ایئربیس پر میزائل حملہ کر دیا گیا لیکن آج تک ایک بھی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہو کہ شام کی حکومت خان شیخون پر کیمیاوی حملے میں ملوث تھی۔
اس سلسلے میں امریکی صحافی اور تجزیہ نگار سیمور ہیرش (Seymour Hersh) کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کو اس بات کا علم تھا کہ خان شیخون پرجس کیمیاوی حملے کا دعوی کیا گیا ہے وہ ہوا ہی نہیں ہے۔ سیمور ہیرش نے ویلٹ ایم سونٹگ (Welt am Sonntag) جریدے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے خان شیخون پر حملے سے متعلق شام میں موجود امریکی فوجی اور ایک امریکی سیکورٹی مشیر کی گفتگو کی خبر دی۔ اس گفتگو میں امریکی فوجی کہتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ کیمیاوی حملہ نہیں ہوا ہے بلکہ شام کی فوج نے داعش کے اسلحے کے ایک گودام پر حملہ کیا ہے۔
خان شیخون کےکھیل سے پتہ چلتا ہے کہ وائٹ ہاؤس شام میں ایک نئےسناریو پر عمل کر رہا ہے۔ جس کا مقصد اس ملک میں ایک نئی مہم جوئی کا آغاز کرنا ہے۔ شام پر امریکہ کے ایک اور ممنکہ حملے کے بارے میں تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ روسی سینیٹ کے خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ کونس ٹینٹین کوسیچف (Konstantin Kosachev) نے بدھ کے دن کہا کہ امریکہ کی نئی مہم جوئی خوش آئند نہیں ہے۔ امریکیوں کو حتی اگر ایک نئے کیمیاوی حملے کے بارے میں معلومات ہیں تو وہ اس کی روک تھام کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ لیکن شعوری طور پر شام کے صدر کو نشانہ بنانے ، اس ملک پر پیشگی حملے کی تیاری کرنے یا اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے دعوی کیا ہےکہ شام کی فوج کیمیاوی حملے کی تیاری کر رہی ہے تو درحقیقت وائٹ ہاؤس کی یہ مہم جوئی آگ کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے اور دہشت گرد اور مسلح گروہ اشتعال انگیز اقدامات کے لئے اس سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ خان شیخون کے کھیل کے تجربے کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ ایران، روس اور شام نے امریکہ کے ہر نئے شام مخالف اقدام کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بدھ کے دن دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ماسکو واشنگٹن کے شام مخالف اشتعال انگیز اقدام کا مناسب جواب دے گا۔ اسی تناظر میں اسرائیلی ویب سائٹ دبکا فائل (DEBKA file) نے ، کہ جو صیہونی حکومت کے سیکورٹی شعبے کے بہت قریب ہے، وائٹ ہاؤس کی نئی مہم جوئی کے بارے میں لکھا ہے کہ لاذقیہ میں واقع حمیمیم ایئربیس میں بشار اسد کی موجودگی سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ دمشق اور ماسکو امریکہ کے حملوں کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔