Aug ۳۱, ۲۰۱۷ ۱۵:۵۵ Asia/Tehran
  • غزہ کا بحران اور اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش مشرق وسطی کا اپنا دورہ جاری رکھتے ہوئے کل تیس اگست کو غزہ پہنچے۔ انہوں نے مشرق وسطی کے دورے کا آغاز ستائیس اگست سے کیا۔ اٹھائیس اگست کو وہ مقبوضہ فلسطین پہنچے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کل غزہ کے دورے کے موقع پر کہا کہ غزہ میں ہم المناک ترین انسانی بحران کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے غزہ کا محاصرہ ختم کئے جانے کا مطالبہ بھی کیا۔

سنہ دو ہزار سات سے اسرائیل نے غزہ کے فلسطینیوں پر بدترین تشدد روا رکھا ہوا ہے۔ اسرائیل نے نہ صرف جنگ بلکہ ہمہ گیر محاصرے کے ذریعے غزہ پٹی میں بدترین انسانی صورتحال پیدا کر دی ہے حتی آج کہا جاتا ہے کہ تقریبا بیس لاکھ فلسطینیوں کو سب سے بڑی اوپن جیل میں قید کر دیا گیا ہے۔لیکن قید و بند ہی فلسطینیوں پر روا رکھا جانے والا واحد تشدد نہیں ہے۔  غزہ کے فلسطینیوں کو درپیش مشکلات کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

اول: اسرائیل کے ہاتھوں ان کا ہمہ گیر محاصرہ۔

 دوم: فلسطینی بیماروں کا سفر اور علاج معالجے سے محروم کر دیا جانا

سوم: رہائشی مکانات کا تباہ ہوجانا اور ان کے مالکین کا بے گھر ہونا۔

چھارم: اسرائیلی جیلوں میں فلسطینیوں کا قید ہونا اور ان کے اہل خانہ کے لئے مشکلات پیدا کیا جانا۔

پنجم: جنگ میں فلسطینیوں کا شہید ہونا۔

صیہونی حکومت کے ان اقدامات سے انسانی حقوق کے متعدد بین الاقوامی کنونشنوں کے اصولوں  اور قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے حالانکہ اقوام متحدہ نے بھی ان اصولوں اور قوانین کی تدوین کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی کے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام کے لئے اب تک کوئی ایک بھی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا ہے۔ غزہ کے بحران کے بارے میں اقوام متحدہ کی جانب سے کوئی اقدام نہ کئے جانے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے اراکین کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنائے جانے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اسرائیل کے مظالم کے خلاف اب تک متعدد قراردادیں منظور کر چکی ہے لیکن یہ قراردادیں لازم الاجراء نہیں ہیں۔ اس لئے اسرائیل بھی ان قراردادوں میں درج شدہ مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دیتا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلوں کو عملی جامہ تو پہنایا جاتا ہے لیکن یہ کونسل اسرائیل کی حامی مغربی طاقتوں کے زیر تسلط ہے۔ ان طاقتوں خصوصا امریکہ کو ویٹو کا حق حاصل ہے اور وہ اسرائیل کے خلاف کوئی بھی قرارداد منظور نہیں ہونے دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ غزہ کا بحران، کہ جو اسرائیل کے مظالم کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، مغربی ممالک کے مفادات پر ان اقدار اور انسانی حقوق کے بھینٹ چڑھنے کا واضح ترین مصداق ہے جن کا دعوی یہ ممالک کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ بھی اس بحران کا خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے حکام غزہ پٹی کی المناک صورتحال پر صرف افسوس اور تشویش کا اظہار ہی کرتے ہیں اور وہ  غزہ پٹی کے فلسطینیوں کی مشکلات کم کرنےکے سلسلے میں کوئی اقدام انجام نہیں دیتے ہیں۔

انٹونیو گوٹریش نےبھی اس حالت میں غزہ میں المناک انسانی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ جب اس منصب پر فائز ہونے کے نو ماہ بعد پہلی مرتبہ غزہ پٹی کا دورہ کیا ہے۔ غزہ پٹی کے فلسطینیوں کی مشکلات کم کرنے کے لئے ضروری ہےکہ اقوام متحدہ کا ادارہ بڑی طاقتوں سے مرعوب ہونے کا سلسلہ ترک کردے اور اس بہت بڑے انسانی بحران کے بارے میں سرگرمی کا مظاہرہ کرے۔

ٹیگس