Sep ۰۴, ۲۰۱۷ ۱۸:۴۶ Asia/Tehran
  • جزیرہ نمائے کوریا میں ایٹمی پروگرام پر یورپی یونین کا ردعمل

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے اتوار کو ایک بیان میں شمالی کوریا کے ایٹمی تجربے کو بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے-

شمالی کوریا نے اتوار کے روز اعلان کیا کہ اس نے اس ملک کے شمالی علاقے میں ایک ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا ہے - یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے اپنے بیان میں اس اقدام کو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ اور ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ معاہدے کے لئے اہم چیلنج قرار دیا ہے- شمالی کوریا کے ایٹمی تجربے کے تعلق سے یورپی یونین کا موقف ، مشرقی ایشیا کے حساس اور اسٹریٹیجک علاقے میں فوجی کشیدگی میں اضافے پر تشویش اور یورپی مفادات خطرے میں پڑجانے کا غماز ہے - بتایا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کا یہ تجربہ، اس ملک کا سب سے طاقتور ایٹمی تجربہ ہے اور جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ہائیڈروجن بم ناگا ساکی پر گرائے گئے ایٹم بم سے بھی پانچ گنا زیادہ طاقتور ہے اور یہ بم بیلسٹک میزائل کے ذریعے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے -

ادھر شمالی کوریا کے ہائیڈروجن بم کے تجربے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہنگامی اجلاس طلب کیا - امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کی جانب سے طاقتور ہائیڈروجن بم کے تجربے کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا کی دھمکیاں اور اقدامات امریکا کے لئے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ شمالی کوریا کی جانب سے طاقتور ہائیڈروجن بم  کے کامیاب تجربے پر سوشل میڈیا  پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے الفاظ اور عمل دونوں ہی امریکا کے لئے انتہائی خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔ جنوبی کوریا ، چین اور جاپان نے بھی ایٹمی تجربے کی مذمت کرتے ہوئے صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان نے بھی شمالی کوریا کی جانب سےہائیڈروجن بم کےتجربے کی مذمت کی ہے۔

درحقیقت پیونگ یانگ نے اپنے خلاف کسی بھی قسم کے سیکورٹی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے، متعدد میزائل تجربات اور آخر میں ایک ہائیڈروجن بم کا بھی کامیاب تجربہ انجام دیاہے-شمالی کوریا کو مشتعل کرنے میں امریکہ کا اہم کردار ہے چنانچہ حال ہی میں امریکہ اور جنوبی کوریا نے وسیع پیمانے پر فوجی مشقیں انجام دیں جس کے باعث جزیرہ نمائے کوریا میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے-

جزیرہ نمائے کوریا میں بحران میں شدت کی ایک اہم وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دھمکی آمیز اورجنگ پسندانہ رویہ ہے-  یورپی ملکوں میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ واشنگٹن جان بوجھ کر مشرقی ایشیا کو بدامنی اور عدم استحکام کی جانب لے جانا چاہتا ہے- گزشتہ چند مہینوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر نظر ڈالنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جزیرہ نمائے کوریا کے بحران کے سلسلے میں ٹرمپ کے اقدامات اور مواقف، محض مشرقی ایشیا کے حساس علاقے میں کشیدگی میں اضافے اور وسیع پیمانے پر ممکنہ فوجی تصادم میں اضافے کا باعث بنے ہیں- یہ ایسے میں ہے کہ یورپی یونین کے لئے مشرقی ایشیاء میں امن و سلامتی کا وجود اور استحکام ، ترجیحات میں شامل ہے- لیکن امریکہ کے لئے اپنی علاقائی بالادستی کو مضبوط بنانے اور چین کی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے، نیز شمالی کوریا کے خلاف دباؤ میں شدت لانے کو ترجیح حاصل ہے-

اس کے مقابلے میں یورپی یونین اپنے تجارتی اور اقتصادی مفادات کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور فطری امر ہے کہ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان فوجی اور سیکورٹی کشیدگی ، اس علاقے کی معاشی سلامتی کے خطرے میں پڑنے کا باعث بنے گی- اور اس طرح کی صورتحال جاری رہنا، یقینا یورپی یونین کے لئے بہت زیادہ نقصان میں ہے- ایک سیاسی ماہر میتھیس ڈمبینسکی Matthias Dembinsky  کا ماننا ہے کہ کوریا کی جنگ میں ہونے والے بھاری نقصانات کے پیش نظر ، دونوں فریق کو چاہئے کہ حالات کے مزید بدتر ہونے کی روک تھام کریں اور اس بحران کے حل کے لئے معقول راہ حل تلاش کریں- اور یورپی یونین کا موقف بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ موگرینی نے جزیرہ نمائے کوریا کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لئے سیاسی مذاکرات میں شرکت کے لئے یورپی یونین کی آمادگی کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ پرامن طریقوں سے ہی کسی نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے جبکہ شمالی کوریا کے خلاف ٹرمپ کا موقف یہ ہے کہ پوری توانائی کے ساتھ شمالی کوریا کا مقابلہ کرے اور اس کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرے-       

  

ٹیگس