Oct ۱۴, ۲۰۱۷ ۱۷:۲۵ Asia/Tehran
  • خلیج فارس کے عرب ملکوں میں مخالفین کے خلاف موت کی سزاؤں میں شدت

خلیج فارس کے بعض عرب ملکوں میں سیاسی سرگرم کارکنوں کو موت کی سزا میں شدت لائے جانے سے، رائے عامہ اور قانونی اداروں میں وسیع پیمانے پر تشویش پائی جاتی ہے۔

اسی سلسلے میں بحرین کی انسانی حقوق کی تنظیم (ADHRB) نے تین ملکوں سعودی عرب، کویت اور بحرین میں موت کی سزا میں تیزی آنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے- اس تنظیم کے سربراہ حسین عبداللہ نے کہا کہ خلیج فاس کے بعض عرب ملکوں میں، لوگوں کی سزائے موت میں ایسے میں شدت آئی ہے کہ یہ سزائیں زیادہ تر پرامن طور پر سیاسی مخالفت کرنے والوں کے خلاف انجام پا رہی ہیں- قانونی ماہرین، خلیج فارس کے بعض عرب ملکوں خاص طور پر سعودی عرب اور بحرین  کی عدالتوں میں صادر ہونے والے احکامات کے بے بنیاد اور غیر قانونی ہونے نیز عدل و انصاف کے فقدان کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان ملکوں کے ڈھانچے، تشدد پسندی اور سلفی نظریات  پر مبنی ہیں اور ان حکومتوں کے ڈھانچے، بنیادی طورپر تشدد اور ظلم پر استوار ہیں- 

اس بناء پر سعودی عرب اور بحرین جیسے ملکوں کی عدلیہ کے حکام منصفانہ احکامات صادر کرنے کے بجائے شرعی و قانونی اصولوں کو مدنظر رکھے بغیر اپنے شہریوں کے خلاف ظالمانہ احکامات جاری کرتے ہیں- سعودی عرب کی طرف سے پھانسی کی سزا دینے پر اصرار اور اس میں تسلسل ایسے عالم میں جاری ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے سیاسی کارکنوں کو پھانسی دینے کے فیصلوں پر بارہا اعتراض کیا ہے اور اسے غیر منصفانہ اورعالمی قوانین کے منافی قرار دیا ہے۔ عالمی اداروں کی رائے کے مطابق سیاسی کارکنوں کو پھانسی کی سزا دے کر سعودی حکومت اپنے مخالفین کی آواز کو دبانا چاہتی ہے اور یہ پالیسی نہ صرف ہولناک بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔ آل سعود کی استبدادی، پرتشدد اور مخالفین کو کچلنے والی پالیسیوں کے خلاف سعودی عوام اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مخالفت، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس ڈکٹیٹر حکومت کو سعودی عرب میں عوامی جمہوری حکومت کے قیام کے لئے جاری تحریک کو روکنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ 

سعودی حکومت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ سعودی حکام، اپنے متعصبانہ رویئے اور مذہبی بنیادوں پر روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے خلاف اٹھنے والی صدائے احتجاج کو دبانے کے لئے ، مخالفین کو مختلف الزامات کے تحت پھانسی پر چڑھا دیتے ہیں۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان نے یمن کے غریب عوام پر حملے اور یمن کے اسپتالوں، نابینا بچوں کے تربیتی مراکز، اسکولوں اور دیگر شہری مراکز پر بمباری کرنے کے علاوہ، خود سعودی عرب کے اندر بھی اپنے سیاسی مخالفین منجملہ آیت اللہ باقر النمر جیسے ممتاز عالم دین کا سر قلم کرنے جیسے انسانیت سوز اقدامات کئے ہیں۔ آل سعود کا نظام حکومت ایک موروثی نظام ہے اور اس ملک کے عوام، حکومتی امور میں کسی بھی طرح کا کوئی رول نہیں رکھتے اور پارلیمنٹ میں بھی عوام کی نمائندگی نہیں ہوتی ۔ جبکہ سعودی عرب کے اندرونی سیاسی حالات سے بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آل سعود خاندان میں ایک سے دوسرے کے ہاتھ میں اقتدار کی منتقلی سے بھی اس استبدادی حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی بھی نہیں آتی۔

سعودی حکومت کے اقدامات، جو ایک ڈکٹیٹر حکومت ہے، تشدد اور سرکوبی پر مشتمل ہیں اور ہر ڈکٹیٹر حکومت کی طرح اس کی بھی کوشش رہتی ہے کہ اپنے شہریوں کو کچل کر اپنے استبدادی نظام کو باقی رکھنے کا راستہ ہموار رکھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت سعودی حکومت کی جیلوں میں تیس ہزار سے زائد سیاسی قیدی موجود ہیں جس سے سعودی شہریوں کے سلسلے میں آل سعود حکومت کے تشدد پسندانہ اقدامات اور رویوں کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ سعودی حکومت کی تشدد پسندانہ، آمرانہ اور استبدادی سوچ کی وجہ سے ہی عالمی رائے عامہ اس حکومت کو ایک رجعت پسند اور قرون وسطائی حکومت کے طور پر دیکھنے پر مجبور ہے۔سعودی حکام کا جمہوریت سے ناطہ اچھا نہیں ہے اور وہ شہریوں کے سیاسی اور قانونی مطالبات کو برداشت نہیں کرتے اور تشدد، گرفتاریوں اور پھانسیوں کے ذریعے ان کا جواب دیتے ہیں۔

ٹیگس