Oct ۱۶, ۲۰۱۷ ۱۵:۱۲ Asia/Tehran
  • عرب دنیا کی کشیدگی اسرائیل کے مفاد میں

اسلامی تشخص کی حامل عرب دنیا کی باہمی کشیدگی صیہونی حکومت کے لئے بہت خوش آئند ہے۔

تیونس کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے پندرہ اکتوبر کو رپورٹ دی کہ فلسطین کی جمعیت انصار اور دوسری بعض غیر سرکاری تنظیموں نے تیونس میں ایک کانفرنس کے دوران عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے نیز براعظم افریقہ میں صیہونی حکومت کے اقدامات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے مختلف ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ براعظم افریقہ میں صیہونی حکومت کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

ماضی قریب میں عرب ممالک حتی دوسرے ملکوں پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات اور رابطہ ختم کریں۔ جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ان ممالک کی جانب سے سنہ دو ہزار سے سنہ دو ہزار آٹھ تک قطر پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ دوحہ میں اسرائیل کے تجارتی دفتر کو بند کرے۔ آخرکار قطر نے سنہ دو ہزار آٹھ میں اس دفتر کر بند کر دیا۔ لیکن آج عرب دنیا میں صورتحال اس کے برخلاف نظر آ رہی ہے اور عرب ممالک کی باہمی کشمکش میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ شام، عراق، یمن اور لیبیا  کے بین الاقوامی بحرانوں کے علاوہ کہ جن کے المناک نتائج برآمد ہوئے ہیں، عرب دنیا کو دوسرے اہم بحرانوں کا بھی سامنا ہے۔ قطر کے ساتھ چار عرب ممالک یعنی سعودی عرب، مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات کی کشیدگی نیز عراقی حکومت اور عراقی کردستان کے علاقے کی باہمی کشیدگی عرب دنیا کو درپیش اہم بحران ہیں۔ عرب دنیا میں تیسری قسم کی کشیدگی بھی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ کشیدگی حکومتوں کی جانب سے عوامی احتجاج کے سلسلے میں مناسب ردعمل ظاہر نہ کئے جانے کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ بحرین، مصر اور اردن کے اندرونی حالات اس کشیدگی کی واضح مثالیں ہیں۔

ان تمام امور سے اس چیز کی عکاسی ہوتی ہے کہ عرب دنیا میں سیاسی خلفشار پایا جاتا ہے اور سیکورٹی کی صورتحال بھی مناسب نہیں ہے اور یہ بات صیہونی حکومت کے لئے خوش آئند ہے اور اسی صورتحال سے صیہونی حکومت اپنے مفادات اور مقاصد حاصل کر سکتی ہے۔ صیہونی حکومت کا سب سے بڑا ہدف مشرق وسطی میں اپنی تنہائی سے نجات پانا ہے اور عرب دنیا میں پائی جانے والی تین طرح کی کشیدگیوں کی وجہ سے یہ حکومت اپنے اس ہدف کے قریب پہنچ گئی ہے۔ جمعیت انصار فلسطین کے سربراہ اور تاریخ کے محقق مراد یعقوبی نے اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ بعض افریقی ممالک کا کہنا ہے کہ جب عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کے لئے کوشاں ہیں تو پھر ہم اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر کیوں نہ لائیں۔

صیہونی حکومت نہ صرف عرب دنیا کی باہمی کشیدگی سے فائدہ اٹھاتی ہے بلکہ وہ عرب ممالک کو آپس میں لڑانے اور اس لڑائی میں شدت پیدا کرنے کے لئے بھی کوشاں رہتی ہے۔ اس سلسلے میں صیہونی حکومت کی جانب سے عراقی کردستان کے علاقے کی علیحدگی کی حمایت نیز قطر اور سعودی عرب کی کشیدگی کو بڑھاوا دینے کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے۔  

حقیقت یہ ہے کہ دولت مند عرب ممالک عرب دنیا اور براعظم افریقہ میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے کے بجائے آپس میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک میں بدامنی اور خلفشار پیدا ہو چکا ہے جس کا فائدہ صیہونی حکومت اٹھا رہی ہے۔

 

ٹیگس