Nov ۰۸, ۲۰۱۷ ۱۶:۰۴ Asia/Tehran
  • سعودی عرب کے توسط سے یمن کے محاصرے میں شدت پر عالمی اداروں کا انتباہ

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے یمن میں انسانی المیہ ہونے کی بابت خبردار کرتے ہوئے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گزرگاہوں کو کھول دے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ایک بیان میں یمن کے خلاف سعودی عرب کی سرکردگی میں عرب اتحاد کے حملوں کی نسبت تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس ملک کے تمام زمینی، ہوائی اور سمندری راستے بند ہونے کے سبب انسانی المیہ رونما ہونے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ اس دفتر نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یمن کو انسان دوستانہ امداد پہنچانے کے لئے گزرگاہوں کو کھول دے۔ 

یمن کی گزرگاہوں کو بند کرنے کا سعودی عرب کا اقدام اس ملک کے عوام کو اجتماعی طور پر سزا دینے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ اگر یمن کے لئے امداد رسانی کے راستے نہ کھولے گئے تو یہ مسئلہ لاکھوں یمنیوں کے لئے جو بھوک اور فقر سے دوچار ہیں المناک واقعہ رونما کا موجب بن جائےگا۔  قتل عام سے روکنے اور اس کی سزا سے متعلق کنوینشن نے اس سلسلے میں انجام پانے والے ہر اقدام کو جرم شمار کیا ہے اور اقدام کرنے والوں کو سزا دینے پر تاکید کی ہے۔ اس کنوینشن کی ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے توسط سے ایک اعلامیے میں 1950 کے عشرے کے اواخر میں منظوری دی گئی تھی۔ 

قتل عام سے روکنے اور اس کی سزا کے بارے میں کنوینشن ، کہ جو 9 دسمبر 1946 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاس ہوا تھا ، اس نے اپنی 11  دسمبر 1946 کی قرار داد میں اعلان کیا کہ قتل عام یعنی نسل کشی خیانت ہے کہ جس کا ارتکاب بین الاقوامی حقوق کے سلسلے میں ہوتا ہے اور یہ اقوام متحدہ کی روح اور اس کے مقصد کے برخلاف ہے۔ کنوینشن کے آرٹیکل ایک میں بیان ہوا ہے کہ معاہدے کے فریقین تائید اور تصدیق کرتے ہیں کہ نسل کشی چاہے صلح کے زمانے میں ہو یا جنگ کے زمانے میں بین الاقوامی حقوق کی روشنی میں جنایت شمار ہوتی ہے ، اور اقوام متحدہ عہد کرتی ہے کہ اس کی روک تھام کرے  گی اور اس کا ارتکاب کرنے والے کو سزا دے گی ۔

  جب کہ آرٹیکل دو میں موجودہ قرار داد میں نسل کشی کا مصداق ہر وہ اقدام قرار دیا گیا ہے کہ جس کا ارتکاب  کسی نسل قوم یا مذہب کی نابودی کی نیت سے کیا جائے۔ اس آرٹیکل میں قتل عام کی اس طرح سے تعریف کی گئی ہے کہ قتل عام کا،  خواہ سب کو نابود کرنے کے لئے ہو یا ایک قوم یا گروہ یا نسل و مذہب کے کچھ افراد کو قتل کرنے کےلئے ہو دونوں پر اطلاق ہوتا ہے۔  سعودی عرب کی سرکردگی میں بعض عرب ملکوں کے اتحاد نے چھبیس مارچ دو ہزار پندرہ سے یمن کے مظلوم عوام کو اپنی وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ اس جارحیت کے دوران بے گناہ اور نہتے یمنی بچوں اور عورتوں کا قتل، اس ملک کی اسی فیصد سے زائد بنیادی تنصیبات کی تباہی اور یمنی عوام کے لیے کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت اس جارحیت کا صرف ایک پہلو ہے۔

اس جارحیت کا ایک اور پہلو یمن کا ہوائی اور بحری محاصرہ ہے کہ جس کے نتیجے میں یمن کے عوام خاص طور پر بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی سرکردگی میں قائم اتحاد نے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی خاموشی کے سائے میں یمنی بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے کے لیے ممنوعہ ہتھیار بھی استعمال کئے ہیں جن میں کلسٹر بم بھی شامل ہیں۔ یمن کی جنگ میں ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال اقوام متحدہ کی انتہائی بےچارگی کو ثابت کرتا ہے اور یہی بےچارگی سعودی عرب کے سامنے اقوام متحدہ کی پسپائی سے معنی خیز تعلق رکھتی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیاہ ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ غیرمتوقع نہیں تھا کہ عالمی امن و سلامتی کا محافظ یہ نام نہاد ادارہ اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنے میں، یمنی عوام کی حمایت کرنے کے بجائے سعودی لابی کے زیراثر اپنا موقف تبدیل کر لے۔ سعودی عرب ایک ایسے وقت میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی ابتدائی رپورٹ کے مقابل مدعی کی حیثیت سے موقف اختیار کر رہا ہے کہ جب یہ ملک جنگ یمن میں جرائم کا مرتکب ہوا ہے اور اسے عالمی برادری کے سامنے جواب دہ ہونا چاہیے۔ جنگ یمن کی مختلف رپورٹیں اقوام متحدہ سمیت سب کے لیے واضح طور پر آشکار کرتی ہیں کہ سعودی اتحاد نے جنگ کے زمانے میں بچوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا ہے اور یمنی بچوں کا ممنوعہ ہتھیاروں کے ذریعے قتل عام کیا جا رہا ہے۔

بھاری اور ممنوعہ ہتھیاروں سے مارے جانے والے یمنی بچوں کے اعداد و شمار اور شدید غربت میں یمنی عوام کی موجودہ زندگی، دنیا میں رائے عامہ کی قضاوت اور فیصلے کے لیے زندہ ثبوت ہے اور اقوام متحدہ کی جانب سے سعودی اتحاد کا نام بلیک لسٹ سے نکالنا ایک جانبدارانہ اقدام ہے۔ اقوام متحدہ نے تاریخ میں ایسے اقدام کئی بار انجام دیے ہیں اور اس ذمہ دار ادارے کو بڑی طاقتوں اور ان کے حامیوں کی لونڈی بنا کر رکھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کا آزادی کے ساتھ کام نہ کرنا، اپنے فرائض پرعمل کرنے میں اس ادارے کی بنیادی کمزوری سمجھا جاتا ہے اور جب تک یہ رویہ جاری رہے گا عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری پوری ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔

ٹیگس