وال اسٹریٹ تحریک کی سرکوبی اور ایران میں مظاہروں کی حمایت
چند روز قبل ایران کے بعض شہروں میں اقتصادی و معاشی حالات کے سلسلے میں ہونے والے مظاہرے افرا تفری کا شکار ہوگئے اور ایک گروہ نے پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچایا-
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ان واقعات کو ایران کے خلاف اپنے دشمنانہ رویے کو جاری رکھنے کا مناسب بہانہ سمجھتے ہوئے کئی بار مظاہرین کی حمایت میں ٹوئیٹ کیا - ٹرمپ کی جانب سے بار بار ایرانی عوام کی حمایت کے دعوے ایسی حالت میں سامنے آرہے ہیں کہ وہ جب سے وائٹ ہاؤس میں پہنچے ہیں ایرانوفوبیا اور ایران دشمنی کو اپنی خارجہ پالیسی کا سب سے اہم موضوع بنائے ہوئے ہیں- انھوں نے اپنے تازہ ترین مداخلت پسندانہ بیانات میں اپنے بے بنیاد الزامات کو دہراتے ہوئے لکھا کہ ایران ، بقول ان کے سرکاری دہشتگردی کے نمبر ایک حامی کی حیثیت سے ، متعدد بار انسانی حقوق کو پامال کرچکا ہے- لیکن امریکی صدر ٹرمپ اگر گذشتہ برسوں میں امریکہ کی وال اسٹریٹ تحریک کے واقعات پر سرسری نگاہ بھی ڈال لیتے تو انھیں سمجھ میں آجاتا کہ وہ کس بنیاد پرایران میں اقتصادی صورت حال پر ہونے والے مظاہروں کی حمایت کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں-
سن دوہزاربارہ کے شروع میں امریکہ کے اقتصادی نظام کے خلاف بغاوت ہوئی جسے سختی سے کچل دیا گیا- سترہ ستمبر دوہزارگیارہ سے امریکی اقتصاد کے دل یعنی نیویارک کے وال اسٹریٹ میں احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا جو وال اسٹریٹ تحریک کے نام سے مشہور ہوا- وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو نامی تحریک نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ ہم وہ ننانوے فیصدی ہیں کہ جنھیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے- ہم مطلوبہ میڈیکل انشورنس سے محروم ہیں - ہمیں ماحولیات کی آلودگی کا سامنا ہے- ہم نہایت معمولی اجرت پر بغیر کسی قانونی حقوق کے کئی گھنٹوں تک کام کرنے پر مجبور ہیں وہ بھی اگر کام ملے تو!
جبکہ دیگر ایک فیصدی کو سب کچھ حاصل ہے اور ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا- ہم سماج کا ننانوے فیصد ہیں-
امریکہ کی ماساچوسٹ یونیورسٹی کے پروفیسر فرانکلین فیشر وال اسٹریٹ تحریک کے وجود میں آنے کے اسباب کے بارے میں کہتے ہیں : اس تحریک کے وجود میں آنے کے بہت سے عوامل ہیں- امریکی عوام مال و دولت کمانے کے عمل میں عدم مساوات سے نالاں ہیں- ایسی عدم مساوات کہ کانگریس کے ریپبلکن جس کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی طرح کا قدم اٹھانے کی مخالفت کرتے ہیں-امریکی حکومت نے شروع میں اس طرح کے اعتراضات کو کم اہمیت اور معمولی و سطحی ظاہر کرنے کی کوشش کی لیکن مظاہرین کی سرکوبی و تشدد ، مظاہرین پر گھوڑے دوڑانے اور زمین پرگرے ہوئے مظاہرین پر گھوڑے چڑھانے جیسے وحشتناک مناظر ان اقدامات کا صرف ایک حصہ تھے جو اگر دنیا کے کسی بھی علاقے میں ہوتے تو امریکہ اور اس کے اتحادی اس پر انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی، شہریوں کے حقوق کی پامالی ، تشدد پسندی ، سرکوبی اور نہ جانے کیا کیا الزام لگاتے- آج امریکہ، اسی روش کو ایرانی عوام کی حمایت کے قالب میں دہرا رہا ہے لیکن ملت ایران ابھی یہ نہیں بھولی ہے کہ ٹرمپ کس طرح تین مہینے پہلے اپنی تقریروں میں یہ جھوٹا دعوی کرتے تھے کہ ایران ، ایٹمی سمجھوتے کا پابند نہیں ہے اور انھوں نے ملت ایران کی توہین کرتے ہوئے اسے دہشتگرد قوم تک کہہ ڈالا اور ایک فرمان پر دستخط کرکے ایرانی شہریوں پر امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی- ٹرمپ آج کل ایران کے خلاف فخریہ جو اقدامات کر رہے ہیں اس کا مطلب عوام کا دفاع نہیں بلکہ فریبکاری ہے-