Jan ۰۴, ۲۰۱۸ ۱۵:۵۹ Asia/Tehran
  • آل سعود کے ہاتھوں آیت اللہ النمر کی شہادت کی دوسری برسی

آج کل آل سعود کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے شہید کئے جانے والے سعودی شیعہ مذہبی پیشوا آیت اللہ نمر باقر النمر کی دوسری برسی منائی جا رہی ہے - اس مناسبت سے دنیا کے مختلف ممالک میں پروگرام منعقد کئے جا رہے ہیں-

اطلاعات کے مطابق مجاہد شہید آیت اللہ باقرالنمر کی برسی کی مناسبت سے عراق کے شہر کربلا میں بھی مجالس ترحیم اور پروگراموں کا انعقاد کیا گیا- اس موقع پرعراقی عوام نے اس ملک کی رضاکار فورس الحشدالشعبی کے شہداء کو بھی خراج تحسین پیش کیا- آیت اللہ باقرالنمر کی برسی کے موقع پر ہندوستانی مسلمانوں نے بھی عزاداری اور مجالس ترحیم کا انعقاد کر کے اس مظلوم شہید کو خراج عقیدت پیش کیا- پاکستان سے بھی شہید باقرالنمر کی برسی کی مناسبت سے پروگراموں کے انعقاد کی اطلاعات ہیں-

دوسری جانب آیت اللہ باقرالنمر کی برسی کے موقع پر جرمنی میں سعودی عرب کے سفارتخانے کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور لندن میں بھی اسی مناسبت سے احتجاجی مظاہرے ہونے والے ہیں- بحرینی عوام نے بھی سعودی مذہبی پیشوا آیت اللہ شہید النمر کی شہادت کی مناسبت سے مختلف شہروں میں مظاہرے کئے - سعودی عرب کے شیعہ مذہبی پیشوا آیت اللہ باقرالنمر کو دوجنوری دوہزار سوله کو سعودی حکومت کے مظالم پر تنقید کی بنا پر سزائے موت دی گئی تھی اور آل سعود کے اہلکاروں نے سب کی نظروں کے سامنے ان کا سرقلم کردیا جس پر دنیا کے مختلف ملکوں میں آل سعود کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے-

آل سعود کے ہاتھوں آیت باقرالنمر کی شہادت کی دوسری برسی کے موقع پر سعودی قانون داں طہ الحاجی نے کہا کہ سعودی شیعہ مذہبی رہنما کی شہادت مظلوموں کی مدد کے لئے تمام حریت پسندوں کے لئے ایک محرک ہونا چاہئے-

علاقے اور دنیا کے بہت سے ملکوں میں سعودی شیعہ رہنما آیت اللہ باقرالنمر کوسزائے موت دیئے جانے کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے ایک ایسی حکومت کے لئے باعث ننگ و عار ہیں کہ جو اپنے پرتشدد اقدامات سے ہرمخالف آواز کو دبانے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس کے اقدامات کے الٹے نتائج نکل رہے ہیں -سعودی عوام کے مظاہروں کو کچلنے کے لئے آل سعود کے ظالمانہ رویے، رائے عامہ کی نفرت کا باعث بنے ہیں- سعودی عرب کے اندر آل سعود کو کبھی بھی مقبولیت اور قانونی حیثیت حاصل نہیں رہی ہے -

اس صورت حال کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکمراں سعودی خاندان وہابی نظریات کی بنیاد پر شہریوں کے لئے کسی بھی طرح کے حقوق کا قائل نہیں ہے اور سعودی حکومت انسانی حقوق پامال کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی حکومت شمار ہوتی ہے- آل سعود کے فرقہ وارانہ اقدامات کے تناظر میں آیت اللہ باقرالنمرکو جولائی دوہزار بارہ میں ان مظاہروں میں شدت آنے کے بعد کہ جو فروری دو ہزار گیارہ میں الشرقیہ کے قطیف علاقے سے شروع ہوئے تھے ، گرفتار کیا گیا تھا- آیت اللہ نمر کو پندرہ اکتوبر دوہزار پندره میں سعودی عرب کی کٹھ پتلی عدلیہ نے نقض امن کے بے بنیاد الزام کے تحت گرفتار اور مجمع عام میں سرقلم کرکے سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا-آیت اللہ باقرالنمر کو شہید کرنے کے آل سعود کے جرم کے خلاف سعودی عوام کے بڑھتے ہوئے احتجاجی مظاہروں سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی حکومت نے آیت اللہ باقرالنمر کو شہید کرکے ایک اور اسٹریٹیجک غلطی کی ہے-

آل سعود کے استبدادی اقدامات نے سعودی حکومت کو سنگین مسائل سے دوچار کردیا ہے اور اس تشدد پسند حکومت کی بنیادوں کو مزید کمزور کردیا ہے-سعودی حکام ، سزائے موت کو مخالفین کی زبان بند کرنے کا ہتھکنڈہ سمجھتے ہیں اور رعب و وحشت پیدا کر کے گھٹن کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ کوئی بھی آل سعود کے خلاف کھل کر کچھ کہنے کی ہمت نہ کرے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ آل سعود حکومت، انسانیت سوز مظالم و رویے اور سعودی مظاہرین اور سیاسی شخصیتوں کو اجتماعی پھانسی دینے کے باوجود مغرب خاص طور سے امریکہ کی حمایت یافتہ ہے کہ جو جمہوریت کا بھی دعوے دار ہے- 

ٹیگس