افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ
رپورٹوں کے مطابق امریکہ بدستور، افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔
افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو فورسز کے کمانڈر جنرل جان نیکلسن کے بقول، امریکی فوج کے خصوصی مشیروں کی یونٹ پر مشتمل مزید آٹھ سو فوجی آئندہ ہفتوں میں افغانستان روانہ کئے جائیں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں اپنے ملک کی فوجی اسٹریٹیجی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں نامعلوم مدت تک امریکی فوج تعینات رہے گی اور گروہ طالبان کے ساتھ مقابلہ جاری رکھے گی۔ اسی سبب سے امریکہ نے گذشتہ ایک سال کے دوران خفیہ طور پر افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف سوالات سامنے آتے ہیں منجملہ یہ کہ کیا امریکہ واقعا افغانستان میں اپنی فورسیز کی تعداد میں اضافہ ، تشدد پسند گروہوں سے مقابلے کے لئے کر رہا ہے؟ کیا اب تک ان فوجیوں کو کوئی کامیابی حاصل ہوئی ہے؟ اور یہ کہ افغانستان میں فوج کی تعداد بڑھانے سے امریکہ کے حقیقی اہداف کیا ہیں؟
امریکہ نے دوہزار ایک میں دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے افغانستان پر حملہ کیا اور اس ملک پر قبضہ جمالیا لیکن امریکہ نے دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف کوئی اقدام نہیں کیا یعنی ان دہشت گردوں کے مالی ذرائع ، کہ جو منشیات کی پیداوار اور اس کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی ہے، کو نابود کرنے کے سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ اپنے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے پیدا کردہ بحران کو مزید تقویت دی ہے۔ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی اور امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے دہشت گردوں کی نقل مکانی پر مبنی بعض رپورٹیں اسی سلسلے میں قابل غور ہیں۔
افغانستان کےسابق صدر حامد کرزئی کہتے ہیں کہ گذشتہ دوعشروں کے دوران دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی، نہ صرف ان گروہوں کے خاتمے پر منتج نہیں ہوئی ہے بلکہ دہشت گردوں کی تقویت کا سبب بھی بنی ہے۔ دوہزار چودہ سے قبل تک امریکہ اور نیٹو کے ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد فوجی افغانستان میں تعینات تھے اس وقت تو ان فوجیوں نے دہشت گردی سے مقابلے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام انجام نہیں دیا ، تو پھر اس وقت واشنگٹن کس طرح سے یہ چاہتا ہے کہ پندرہ ہزار فوجی تعینات کرنے کے ذریعے افغانستان میں سلامتی بحال کرسکے گا۔ اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ افغانستان کے علاقوں میں صرف اپنے فوجی اڈوں کو زیادہ سے زیادہ مسلح کرنے اور تقویت دینے کی کوشش میں ہے۔ اورامریکہ کے تازہ دم فوجی دستے کی افغانستان روانگی بھی، ان ہی اڈوں کی گنجائشوں کے تناسب سے ہوگی کہ جو افغانستان، بلکہ علاقے کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کرنے کے مقصد سے ہے۔
افغانستان میں سیاسی مسائل کے ماہر وحید مژدہ کہتے ہیں: افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کا مقصد، پڑوسی ملکوں منجملہ چین اور مرکزی ایشیاء کے ملکوں کے لئے مسائل و مشکلات کھڑی کرنا ہے۔ بہرحال افغانستان میں ایک غاصب ملک کی حیثیت سے امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ، درحقیقت گذشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے کے دوران افغانستان میں برطانیہ اور سوویت یونین کے شکست خوردہ تجربے کی تکرار ہوگی اس لئے کہ افغان عوام نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ ہرگز غاصبوں کو اپنے ملک میں قدم جمانے کی اجازت نہیں دیں گے اور جیسا کہ حال ہی میں سابق جہادی رہنما اسماعیل خان نے بھی خبردار کیا ہےکہ امریکہ کو، افغانستان میں غاصبوں کے انجام سے سبق لینا چاہئے۔
اگرچہ امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما نے، اس تشویش کے سبب کہ کہیں افغانستان، امریکہ کے لئے ایک اور ویتنام میں تبدیل نہ ہوجائے،امریکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو افغانستان سے باہر نکال لیا تھا۔ اس امر کے پیش نظر اب جبکہ امریکہ اورنیٹو افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کررہے ہیں تو نتیجے میں افغانستان میں امن کے رہے سہے امکانات بھی ختم ہوجائیں گے۔ چونکہ دہشتگرد اور انتہا پسند گروہ مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں اور حلقوں کے ساتھ ہم آہنگی سے عمل کرتے ہیں لہذا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ا فغانستان میں بحران جاری رکھنے کے لئے ان کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ جس نے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے کے دعوے کئے تھے اسے افغانستان میں داعش دہشتگرد گروہ کے سامنے آنے کے بعد اچھا بہانہ مل گیا ہے تا کہ وہ دوبارہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھاسکے۔ اس وجہ سے افغانستان میں تشدد کے اضافے کی بنا پر امریکہ اور نیٹو اسے اپنی فوجی موجودگی کا بہانہ بناتے ہیں اور انہوں نے دیگر ملکوں جیسے مرکزی ایشیا اور قفقاز کی طرف دہشتگردی پھیلانے کےلئے افغانستان کو اپنا مرکز بنا لیاہے۔