Feb ۲۴, ۲۰۱۸ ۱۵:۴۰ Asia/Tehran
  • آئی اے ای اے کی دسویں رپورٹ، ایٹمی معاہدے پر ایران کے مکمل پابند ہونے کی تصدیق

جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں دسویں بار یہ اعلان کیا ہے کہ ایران کی ایٹمی سرگرمیاں مکمل طور پر، پرامن اور مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے کے عین مطابق جاری ہیں۔

جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے، درحقیقت ایران اور گروپ پانچ جمع ایک یعنی برطانیہ ، فرانس ، روس، چین، امریکہ اور جرمنی کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کا ایک اہم عنصر اور کلیدی حصہ ہے- اس معاہدے پر عملدرآمد جنوری 2016 سے شروع ہوا۔ 

ایسے میں جبکہ آئی اے ای اے نے ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر مکمل طور پر عملدرآمد کی تائید و توثیق کی ہے ، امریکی صدر ٹرمپ بدستور ایران کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایٹمی معاہدہ چند فریقی معاہدہ ہے جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تائید و توثیق کے ساتھ، تمام فریقوں نے قبول کیا ہے۔ لیکن امریکہ ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ 

ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے ترجمان بہروز کمالوندی نے ہمارے نامہ نگارے کے ساتھ گفتگو میں آئی اے ای اے کی تازہ ترین رپورٹ میں ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کے تعلق سے کئے گئے اپنے وعدوں کی مکمل طور پر پاسداری، اور ان وعدوں پر مکمل طریقے سے عملدرآمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی معاہدے کے خلاف امریکی اقدامات کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ یورپی ممالک امریکیوں پر مزید دباؤ بڑھائیں تاکہ وہ بھی ایٹمی معاہدے کی پابندی کریں۔ 

واشنگٹن پوسٹ نے جمعے کو وائٹ ہاؤس میں بعض ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے کو، چھ شعبوں میں ایران کے رویے میں تبدیلی لانے سے مشروط  کیا ہے اور انہوں نے ان چھ شرطوں کے تعلق سے ایران کے رویے میں تبدیلی لانے کے لئے یورپ سے تعاون کرنے کو کہا ہے۔

اس امریکی عہدیدار کے مطابق ایسے میں جبکہ ٹرمپ نے اس سے قبل ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے کو، اس معاہدے کی بعض شقوں میں اصلاح ، ایران کی فوجی سائٹوں سمیت تمام سائٹوں تک دسترسی کے امکان، اور ایران کے بیلسٹیک میزائل پروگرام کو محدود کرنے سے مشروط کیا تھا، اب انہوں نے ان شقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ، سائبر حملوں کی دھمکیاں اور سپاہ کی معاشی سرگرمیوں کو بھی پہلی تین شرطوں میں اضافہ کردیا ہے۔ 

امریکی وزارت خارجہ میں مشرق وسطی کے شعبے کے سابق سربراہ آلن کیسوتکر،  جو اس وقت واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں کام کر رہے ہیں، کا خیال ہے کہ امریکہ کے اس موقف میں کوئی بھی اس کا ساتھ نہیں دے گا اور وہ اکیلا رہ جائے گا۔ 

اگر امریکہ یہ فیصلہ کرے کہ وہ کسی قابل اطمئنان دلیل اور وجہ کے بغیر ہی ایٹمی سمجھوتے سے کنارہ کش ہوجائے تو وہ یورپ، چین اور روس کو اس مسئلے میں اپنا ہمنوا نہیں بنا سکے گا۔ امریکی کانگریس ایٹمی معاہدے کے بارے میں اس وقت تذبذب کا شکار ہے اور اس سلسلے میں شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے ہیں کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ اس مسئلے پر اپنے یورپی شریکوں کے ساتھ اتفاق رائے کرسکیں گے۔ 

سیاسی حلقوں کے نقطہ نگاہ سے اگر واشنگٹن اپنے تین اہم اتحادی یعنی فرانس ، جرمنی اور برطانیہ پر ایٹمی معاہدے سے نکل جانے، یا اس معاہدے کی بعض شقوں میں تبدیلی لانے اور اسے دوبارہ تحریر کئے جانے کی غرض سے دباؤ ڈالے گا ، تو ممکن ہے کہ ان ملکوں اور امریکہ کے درمیان گہری خلیج پیدا ہوجائے۔ برطانیہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر بعیدی نژاد کہتے ہیں کہ ایٹمی معاہدے کے بارے میں برطانیہ اور یورپی ملکوں کے ساتھ امریکہ کے اختلاف، بہت ٹھوس اور سنجیدہ ہیں۔

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اس وقت یورپ، ٹرمپ کو یہ سمجھانے کی کوشش میں ہے کہ وہ امریکہ کی آٹومیٹیک طور پر پیروی کرنے اور آنکھیں بند کرکے اس کی ہر بات ماننے پر مجبور نہیں ہے۔     

ٹیگس