قدس کے بارے میں ٹرمپ کے خطرناک فیصلے کے نتائج
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے، عنقریب ہی اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کئے جانے کے امریکی فیصلے کی مذمت کی ہے۔
تحریک حماس کے ترجمان عبداللطیف القانوع نے جمعے کی رات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کئے جانے سے صیہونی حکومت کو کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوجائے گی اور قدس سے متعلق حقائق میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
امریکی وزارت خارجہ کے مطابق امریکہ کا سفارت خانہ، مقبوضہ بیت المقدس میں رواں سال مئی میں اسرائیل کے یومِ تاسیس کے موقع پر کھول دیا جائے گا اور امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے سفارتخانہ منتقل کرنے کے حکمنامہ پر دستخط کردیئے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ہیتھر نیورٹ نے جمعے کی رات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کے ملک کے نئے سفارت خانے کی افتتاحی تقریب مقبوضہ بیت المقدس میں، رواں سال 14 مئی کو اسرائیل کے 70 ویں یومِ تاسیس کے موقع پر ہوگی اور اس دن کا انتخاب اسرائیل کی آزادی کے اعزاز میں کیا گیا ہے۔ اس سکیورٹی پلان کو خفیہ رکھا گیا ہے اورحکام کو اس پر عوامی سطح پر بحث کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
ابتدائی طور پر سفارت خانے کی منتقلی علامتی ہوگی اور بتدریج اس عمل کو مکمل کیا جائے گا۔آغاز میں نئے سفارت خانے کا عملہ چند افراد پر مشتمل ہوگا جب کہ تل ابیب میں واقع سفارت خانہ بھی معمول کے مطابق فعال رہے گا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی نائب صدر مائیک پنس نے کہا تھا کہ امریکی سفارتخانہ 2019 کے آخر تک بیت المقدس منتقل کیا جائےگا ۔
واضح رہے کہ چھ دسمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور دارالحکومت تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ شہر قدس کہ جہاں مسجدالاقصی یعنی مسلمانوں کا قبلہ اول موجود ہے، فلسطین کا اٹوٹ انگ ہے اور تین اہم ترین اسلامی مقدسات میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے شہر قدس منتقل کرنے کا امریکی صدر کا گستاخانہ اور غیر قانونی اقدام ، عالم اسلام کے خلاف امریکیوں اورصیہونیوں کی بڑی سازشوں کا حصہ ہے۔
ٹرمپ کے فلسطین مخالف اور اسلام مخالف رویوں کی جڑوں کو صیہونی عیسائیوں کے ایک حامی کے طور پر اس کے فکری عقائد میں تلاش کرنا چاہئے۔ ٹرمپ نے اقتدار میں قدم رکھنے کے وقت سے ہی بین الاقوامی اور علاقائی بحرانوں منجملہ مشرق وسطی کے بحران کو ہوا دی ہے اور بحران فلسطین بھی اس اصول سے مستثنی نہیں ہے بلکہ امریکہ کی نئی پروپگنڈہ پالیسیوں میں اس مسئلے کو اہمیت حاصل رہی ہے۔
مشرق وسطی کے علاقے میں امریکہ کی مجموعی پالیسیوں کے دائرے میں ٹرمپ کی یہ اشتعال انگیز پالیسی، " اس صدی کے معاہدے" کے تناظر میں قابل تجزیہ ہے۔ رائے عامہ اور علاقے کے سیاسی حلقوں کے نقطہ نگاہ سے "صدی کا معاہدہ" مسئلہ فلسطین کو مکمل طور پر محو کرنے اور علاقے میں مزاحمتی محاذ کے خلاف اسرائیل کے ساتھ اتحاد تشکیل دینے کے دائرے میں ہے۔ فلسطین کے سلسلے میں امریکہ کا نیا منصوبہ اسی دائرے میں تھا کہ جس کی بنیاد پر امریکی صدر ٹرمپ نے چھ دسمبر 2017 کو مقبوضہ شہر قدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طورپر تسلیم کئے جانے کا اعلان کردیا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطی میں امن کوششوں کو 'اس صدی کا طمانچہ' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جانبدار امریکہ کے کسی امن منصوبے کو قبول نہیں کریں گے۔ رملہ میں دیگر فلسطینی رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا 'اس صدی کایہ معاہدہ' در اصل اس صدی کا طمانچہ ہے جسے ہم قبول نہیں کریں گے۔
ٹرمپ کا اصلی مقصد صیہونی حکومت کو ایک یہودی حکومت کے طور پر متعارف کرانا اور تمام فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے نکالنا اور بیت المقدس کی مرکزیت میں ایک فلسطینی مملکت کی تشکیل کے مسئلے کو کالعدم قرار دینا اور کلی طور پر فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرنا ہے۔
واضح رہے کہ بیت المقدس فلسطینیوں اور عالم اسلام کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس مسئلے پر شدید حساسیت پائی جاتی ہے۔ بیت المقدس میں امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی کسی بھی توسیع پسندانہ پالیسی کی ہمراہی کرنا امریکہ کے لئے سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا اور اس سے ٹرمپ کے سامنے ان کی متنازعہ داخلی اور خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے مزید چیلنجز کھڑے ہوجائیں گے اور ان پر جاری تنقیدوں میں اضافہ ہوجائے گا اور راکھ کے نیچے دبی اس آگ کو بھڑکا کر امریکہ کے خلاف غصے اور نفرت کے جذبات برانگیختہ کردے گی جن کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔
ان ہی حقائق کے پیش نظر امریکہ کی حکومتوں نے اب تک کانگریس کی مکرر درخواستوں کے باوجود اپنے سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے سے پرہیز کیا ہے لیکن امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اب اس ریڈلائن کو کراس کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ کانگریس کے اس قانون پر عمل کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں کہ امریکہ کا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا جائے - مجموعی طور پر غاصب صیہونی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے، اسرائیل کا ساتھ دینے کے امریکی اقدامات کو، اسلامی ملکوں کے سفارتی ردعمل سمیت مختلف ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر امریکہ الگ تھلگ پڑجائے گا۔