انسانی حقوق کونسل اور اس پر مسلط کئے گئے دوہرے معیارات
جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کا سینتیواں اجلاس جاری ہے۔
اس اجلاس نے یہ موقع فراہم کیا ہے تاکہ انسانی حقوق کے تعلق سے دوہرے معیارات کے بارے میں نقطہ ہائے نگاہ اور جائزے پیش کئے جائیں۔ اس اجلاس میں ایران کے وزیر قانون سید علی رضا آوائی نے بدھ کو اپنی تقریر میں مغرب کے دوہرے معیار کی پالیسی کے سائے میں انسانی حقوق کو درپیش چیلنجوں اور حقائق کو بیان کیا۔ ایران کے وزیر قانون نے، سرد جنگ کے دوران مشرقی اور مغربی دو بلاکوں میں انسانی حقوق کے بازیگروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تقسیم بندی عالمی سطح پر دو سیاسی سسٹم وجود میں آنے کا باعث بنی ہے۔ اور اس مسئلے نے انسانی حقوق کے معیارات قائم ہونے پر برے اثرات مرتب کئے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہی دوہرے معیارات کا سلسلہ جاری ہے اور اس وقت انسانی حقوق کے حقیقی مفہوم پر بعض ملکوں کی اجارہ داری ہے اور ان کے زیر تسلط ہے۔
تہران یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم متقی اس سلسلے میں، بین الاقوامی اداروں کے توسط سے شائع ہونے والی سرکاری رپورٹوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: پوری دنیا میں امریکہ کے ساڑھے تین سو فوجی اور سیکورٹی مراکز پائے جاتے ہیں کہ جن میں کھلے بندوں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور اس کے خلاف بعض یورپی ملکوں نے سخت اعتراض بھی کیا ہے۔
امریکہ انسانی حقوق کے خود ساختہ دعویدار ملک کی حیثیت سے دیگر ملکوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتا، ان کی سزنش کرتا اور ان کے خلاف پابندیاں عائد کرتا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے شہریوں خاص طور پر سیاہ فاموں اور مہاجروں نیز غیرملکیوں اورمقامی افراد کو بدترین امتیازی سلوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا ہے۔
تہران یونیورسٹی میں قانون اور سیاسیات کے شعبے کے پروفیسر ڈاکٹر ابومحمد عسگر خانی، اس سلسلے میں، مغرب میں انسانی حقوق سے متعلق دوہرے معیارات اور حقائق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سلسلے میں امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے اور اس کی واضح مثال مختلف ملکوں میں وائٹ ہاؤس کے توسط سے، دسیوں فوجی بغاوتوں میں اس کا براہ راست کردار ہونا واضح ہے۔
انسانی حقوق کی آشکارہ خلاف ورزی کے جملہ موارد میں سے ایک، فلسطین کی مظلوم قوم کے خلاف صیہونی حکومت کے جارحانہ حملے اور اسے حاصل مغرب کی حمایت ہے۔ اسرائیل چاہے جس قدر ظلم کرے اور جتنے زیادہ فلسطینیوں کو شہید یا گرفتار کرے، یا جتنے سال چاہے غزہ کا محاصرہ کرے اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا قرار نہیں دیا جائے گا۔ اس زاویۂ نگاہ کے مطابق فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کرنے والے اسرائیل کے تمام مظالم کو اپنے دفاع کےنام سے جائز قرار دیا جاتا ہے۔ یمن کے خلاف جنگ بھی ، اسی سلسلے کی ایک اور تلخ حقیقت ہے۔ اس ملک کے خلاف وسیع پیمانے پر پابندیوں اور محاصرے کے باعث یمن کے ایک کروڑ ستر لاکھ افراد کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تقریباً ستر لاکھ افراد قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
امام حسین (ع) یونیورسٹی میں قانون کے اسسٹنٹ پروفیسر سہراب صلاحی نے عراق پر حملے میں امریکی جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غاصب فوجیوں نے عراق میں جن جرائم کا ارتکاب کیا ہے وہ ایک حکومت کی تبدیلی سے بہت بالاترتھا۔ غاصبوں نے اس ملک پر قبضے کے دوران غیرروایتی ہتھیاروں جیسے کیمیاوی ہتھیاروں ، کلسٹر بموں، سفید فاسفورس کے گولوں اور ڈپیلیٹٹ یورینیم کا استعمال کیا ہے کہ جس کے باعث اس ملک اور کسی حد تک علاقے پر شدید انسانی وا جتماعی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
جب امریکہ نے دو ملکوں یعنی افغانستان اور عراق پر حملہ کر کے ان پر قبضہ کر لیا تھا اور غیر انسانی مظالم ڈھائے تھے تو اس نے اپنے اقدامات کو دہشت گردی کے مقابلے کا نام دے کر ان کا دفاع کیا تھا۔ امریکہ نے جب بھی نہتے شہریوں پر بمباری کی اور ان کو موت کے گھاٹ اتارا تو آخرکار اسے ایک غلطی قرار دیتے ہوئے اپنے مظالم پر پردہ ڈال لیا۔ حقیقت یہ ہےکہ آج کی دنیا میں انسانی حقوق کو بھی مغرب، اپنے سیاسی اہداف کے زاویۂ نگاہ سے دیکھتا ہے، اور انسانی حقوق کے ادارے بھی ان ہی اہداف کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔