یمن میں شکست، سعودی فوجی کمانڈروں کے لئے وبال جان بن گئی
سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے توسط سے اس ملک کی مسلح افواج اور انتظامیہ میں اعلیٰ ترین سطح پر جدید اور ناگہانی تبدیلیاں انجام دیئے جانے کو بہت سے سیاسی تجزیہ نگار یمن کی جنگ میں شکست و مایوسی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
ان ناگہانی اور اچانک رونما ہونے والی تبدیلیوں کےاحکامات ، سعودی بادشاہ سلمان نے، ولیعہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان کی درخواست پر جاری کئے ہیں۔ شاید یہ تبدیلیاں سب سے بڑی ہوں کہ جس کی بنیاد پر لیفٹیننٹ جنرل عبدالرحمان بن صالح البنیاں کو مسلح افواج کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا اورساتھ ہی بری ، بحری اور فضائیہ کے کمانڈروں کو بھی ان کے عہدوں سے برطرف کردیا گیا ۔ ان کمانڈروں کی برطرفی کے ساتھ ہی شاہی خاندان کے بعض افراد کو فوجی عہدوں پر بٹھایا گیا۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد بعض دھڑوں کے افراد کو ترقی دے کر ان دھڑوں کی وفاداری اور حمایت حاصل کرنا اور ان کو اہم عہدوں پر بٹھانا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ ویب سائٹ نے ڈیوڈ ایگناتیوس کے تحریر کردہ ایک تجزیے میں ، سعودی ولیعہد بن سلمان کے حالیہ اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے اس ملک میں اصلاحات سے موسوم تبدیلی کی آندھی سے متعلق لکھا ہے کہ سعودی حکومت میں موجودہ تبدیلیاں ، سعودی عرب کی ثقافتی اور سیاسی زندگی کو جدید بنانے کے لئے ضروری سمجھی جا رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب میں بعض ایسے شاہی احکامات جاری کئے گئے ہیں جس کےتحت فوج اور بیوروکریسی میں وسیع تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ چانچہ ان احکامات کی بنیاد پر ایک خاتون کو نائب وزیر محنت کا عہدہ دیا گیا ہے۔ یہ تبدیلیاں سعودی عرب کے ترقیاتی منصوبوں کو مالی اعانت فراہم کرنے اور اس کے دشمنوں سے مقابلے کے لئے لازم اور ضروری ہے۔ سعودی عرب کے معیارات امریکی معیارات سے مختلف ہیں اور یہ کہ سعودی عرب کا یہ خیال ہے کہ اگر حالات صحیح سمت میں جار ہے ہیں تو پھر تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔
سعودی عرب میں فوج کی شکست اس بات کا باعث بنی کہ فوری طور پر ملکی افواج کے اقدامات پر نظرثانی کی جائے۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب میں ان تبدیلیوں کا مقصد اس ملک کے ولیعہد کو درپیش راہ کو ہموار کرنا اور ان کے قریبی افراد کو اونچے عہدوں اور منصبوں پر بیٹھانا، سعودی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ تاکہ اسے موقع حاصل ہوسکے کہ وہ خود کو زمانے کے نئے حالات اور تقاضوں سے واقف شخص کی حیثیت سے اپنے ذہن میں موجود بڑے بڑے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے اوردنیا والوں پر اپنی برتری ظاہر کرے، اگرچہ یہ اقدامات فوج کے نقصان میں ہی کیوں نہ ہوں۔
الجزیرہ نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی عرب میں رونما ہونے والی تبدیلیاں محض ایک بہانہ ہیں کہ جس کے پس پردہ ایسے اہم ترین مسائل پوشیدہ ہیں کہ جن کے بارے میں فیصلے عام طور پر راتوں رات لئے جاتے ہیں اور احکامات جاری کردیئے جاتے ہیں جو ملک کی فوج سے متعلق ہوتے ہیں۔ محمد بن سلمان اپنا پہلا سفر مغربی ملکوں کے لئے انجام دینا چاہتا تھا لیکن بہت سے افراد نے اسے اس سفر سے منع کیا۔ اسے یمن میں شکست و ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا اور بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے بقول وہ جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ وہ تعاون کونسل میں شگاف کا باعث بنا ہے اور اس کے ملک کو اس کے غلط اقدامات کے سبب، سخت حالات سے گذرنا پڑ رہا ہے۔
باوجودیکہ شہزادہ محمد بن سلمان، یمن کی جنگ کا خود ہی سبب بنا ہے لیکن جب وہ متوجہ ہوا کہ اس میں اسے کامیابی نہیں ملے گی تو اب وہ اس فوجی ناکامی اور اس سلسلے میں خرچ ہونے والی خطیر رقم کا ذمہ دار شاہ سلمان کو قرار دینے کے درپے ہے۔ امریکی میگزین فوربس کی رپورٹوں کے مطابق سعودی حکام اپنے ملک کے فوجیوں پر سخاوتمندی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں چنانچہ گذشتہ سال فوجی اخراجات کی بنیاد پر سعودی عرب کے فوجی اخراجات، اسرائیل، ایران، الجزائر، عراق اور عمان کے فوجی اخراجات سے زیادہ تھے۔
سعودی عرب کی فوج محض ایک کاغذی شیر ہے یا بالفاظ دیگر اندر سے کھوکھلی ہے۔ یمن کی جنگ میں اس فوج کی شکست نے یہ ثابت کردکھایا ہے اور معلوم ہوگیا ہے کہ سعودی فوج کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور اب یہ ملک جارحانہ موقف کے بجائے، دفاعی موقف پر اتر آیا ہے اور اب تو اسے صرف اپنی ملک کی سرحدوں کے دفاع کی فکر ہے بلکہ حالات اس حد تک بدتر ہوگئے ہیں کہ سعودی فوج کا مشن، اب تحریک انصاراللہ کے ان میزائلوں کےمقابلے میں، کہ جو داغے جا چکے ہیں یا ممکن ہے کہ آئندہ دنوں میں پھر داغے جائیں، دارالحکومت ریاض کے دفاع تک محدود ہوگیا ہے۔ تحریک انصاراللہ کے میزائل حملوں نے سعودی شہزادوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی فوج کی یمن میں توہین ہوئی ہے۔ ایک بار اسے انصاراللہ کے مقابلے میں اور ایک بار متحدہ عرب امارات کے اتحادیوں کے سامنے ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔