عراق پر حملہ، امریکی حکام کا بدترین فیصلہ تھا
امریکی صدر ٹرمپ نے عراق پر 2003 میں ہونے والے امریکی حملے کو ، امریکی حکام کا بدترین فیصلہ قرار دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاست فلوریڈا میں ریپبلکن پارٹی کے ڈونروں کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے میں کہا کہ سب سے بدترین فیصلہ جو اب تک لیا گیا ہے عراق پر 2003 میں حملے کا فیصلہ تھا۔ ٹرمپ نے ریپبلکن صدر جارج ڈبلیو بش اور امریکہ کی خفیہ انٹلی جنس پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ عراق پر حملہ جینئیس بش کا اور خفیہ انٹلی جنس کا کام تھا جو اعلی انٹلی جنس کہلاتی ہے۔
البتہ اس سے پہلے بھی ٹرمپ دیگر مواقع پر، 2003 میں عراق پرامریکی حملے کو ہدف تنقید بناچکے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ کی جنگوں منجملہ عراق پر جنگ کے باعث امریکی ٹیکس دہندگان کے کو چھ ٹریلین ڈالر سے زائد کا خرچ اٹھانا پڑا ہے۔ ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ اتنی بھاری رقم سے امریکہ اس ملک کے فرسودہ بنیادی ڈھانچے کی کئی مرتبہ تعمیر نو کراسکتا تھا۔
دوسری جانب تازہ ترین رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا کو اپنی ’’احمقانہ پالیسیوں‘‘ سے سالانہ 800 بلین ڈالر خسارے کا سامنا ہے جبکہ دیگر ممالک اس سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ امریکا کے تجارتی سودے اور پالیسیاں احمقانہ ہیں جس کی وجہ سے امریکا کو سالانہ 800 ارب ڈالر تجارتی خسارہ ہو رہا ہے، امریکی اپنی ملازمتیں اور دولت دوسرے ملک کے شہریوں کو دے رہے ہیں اس طرح دوسرے ممالک نے تو امریکا سے فائدے اٹھائے لیکن خود امریکا خسارے میں جا رہا ہے۔
ویتنام کی جنگ کے بعد عراق میں امریکہ کی جنگ سب سے زیادہ خونریز جنگ تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عراق پر حملے میں ساڑھے چار ہزار سے زائد امریکی فوجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ جنگ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے بہانے سے انجام پائی تھی۔ اس زمانے میں امریکہ کے خفیہ اداروں نے یہ دعوی کیا تھا کہ عراق کی بعثی حکومت کے پاس کیمیاوی ہتھیار موجود ہیں اور اس نے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوششیں انجام دی ہیں۔ یہ دعوے خود اس وقت کے امریکی جارج ڈبلیو بش اور وزیر خارجہ کالن پاول نے کئے تھے۔ بہرحال صدام کا تختہ پلٹنے کے مقصد سے، عراق کا چپہ چپہ چھانا گیا لیکن کہیں بھی اس ملک میں مہلک ہتھیار نہیں ملے۔
کچھ عرصے کے بعد اس وقت کے امریکی حکام نے جمہوریت کے فروغ کو عراق پر حملے کی وجہ قرار دیا۔ یہ ایسے میں ہے کہ عراق پر امریکی حملے کے باعث اس ملک میں آشوب ، جنگ اور افراتفری کے ماحول کے باعث جمہوریت کے فروغ کی امید برسہا برس کے لئے ختم ہوگئی۔ یہ جنگ اسی طرح مغربی ایشیاء کے حساس علاقے کے ملکوں کے لئے، کہ جنہوں نے داعش جیسے تکفیری دہشت گرد گروہوں کے وجود میں آنے کے سبب بھاری تاوان ادا کیا ہے،تباہ کن تھی۔ داعش سے مقابلے میں امریکی شہریوں کی بھی جانیں گئی ہیں اور امریکی حکومت کو بھاری مالی اخراجات اٹھانے پڑے ہیں تاکہ اپنے خود ساختہ شر سے رہائی پائے۔
اس وقت عراق پر امریکی حملے کو پندرہ سال کا عرصہ گذرجانے کے موقع پر امریکی صدر نے آشکارہ طور پر اس حملے کو امریکی حکمرانوں کا بدترین فیصلہ قرار دیا ہے۔ ایک ایسا فیصلہ، جو لاکھوں انسانوں کی جانوں کے ضیاع، ان کے بے گھر ہونے، اور کئی ملکوں کی تباہی و بربادی اور امریکہ کے اندر اور باہر ٹریلنیوں ڈالرز کے نابود ہونے پر منتج ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ عراق پر غاصبانہ قبضے کا تلخ سبق، موجودہ امریکی صدر کے لئے عبرت آموز ہوگا۔ ٹرمپ نے عراق پر حملے کو شہد کی مکھی کے چھتے کو چھیڑنے سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن یہی صدر اس وقت شام میں مسلح عناصر اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرکے امریکہ کے سابق حکمرانوں کی ہی راہ پر گامزن ہیں ۔ اس مسئلے سے پتہ چلتا ہے کہ عراق میں بش کے ذریعے حملے پر ٹرمپ کی تنقید ، امریکی حکومت کے رویے میں تبدیلی کا آئینہ دار ہونے سے زیادہ، بش خاندان کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کے حساب چکتا کرنے کی غماز ہے۔