غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی ردعمل
غزہ میں عظیم واپسی کے زیرعنوان مظاہروں کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا اور اسرائیلی حکومت نے ایک بار پھر ان مظاہرین پر حملہ کر کے تقریبا پچاس افراد کو زخمی کردیا
عظیم واپسی کے زیرعنوان غزہ میں ہونے والے مظاہروں کے پہلے دن یعنی تیس مارچ کو مظاہرین پر صیہونی فوجیوں نے وحشیانہ طریقے سے حملہ کر کے کم سے کم سولہ فلسطینیوں کو شہید اورپندرہ سو سے زیادہ کو زخمی کردیا تھا- ان مظاہروں کے انعقاد کا اصلی مقصد اپنے آبائی وطن و سرزمین میں واپسی کے حق پر تاکید کرنا ہے- یہ مظاہرے پرامن نوعیت کے تھے تاہم غاصب صیہونی فوجیوں نے مظاہرین کے خلاف براہ راست جنگی گولیوں کا استعمال کیا- صیہونی سیکورٹی اہلکاروں اور پولیس نے مظاہرین کے ساتھ جو کیا ہے وہ جنگی جرائم کا مصداق ہے کیونکہ عام شہریوں کے پاس کسی طرح کے ہتھیار نہیں تھے اس کے باوجود انھیں فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جس میں پہلے دن کم س کم سولہ افراد شہید اور پندرہ سو سے زیادہ زخمی ہوئے اور دوسرے دن کے مظاہروں میں پچاس مظاہرین زخمی ہوئے-حقیقت تو یہ ہے کہ صیہونی حکومت نے جان بوجھ کو عام شہریوں کو نشانہ بنایا کہ جو ایک اہم موضوع ہےاور جنگی جرم شمار ہوتا ہے اورعالمی فوجداری عدالت کے قانون کے مطابق بھی یہ جنگی جنم کے زمرے میں آتا ہے-
صیہونی حکومت کے اقدامات اور فلسطینی عوام کے مظاہروں میں کوئی تناسب نظر نہیں آتا اور یہ وہ موضوع ہے جسے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کمیشن کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بھی عنوان بنایا ہے- فیڈریکا موگرینی فلسطینی شہریوں کے خلاف ہونے والے جرائم پر تنقید کرتے ہوئے مظاہرین کے مقابلے کے لئے جنگی گولیوں کے استعمال کی علت اور طاقت کے بے جا استعمال کی بات اٹھائی ہے -
عام شہریوں کے سلسلے میں انصاف کو ملحوظ نہ رکھنا بھی جنگی جرائم شمار ہوتے ہیں جبکہ صیہونی حکومت اصولی طور پر انصاف کے نام سے ہی بیگانہ ہے- اس حکومت نے نہ صرف فلسطینیوں کی زمین غصب کرلی ہے بلکہ اس وقت فلسطینی عوام کے پرامن مظاہروں کے سلسلے میں بھی کہ جس میں جلاوطنوں کی وطن واپسی کا مطالبہ کیا جاتا ہے، ذرہ برابر بھی انصاف سے کام نہیں لیتی اور جنگی گولیوں سے غزہ پٹی میں خون کا دریا بہاتی ہے- اس سلسلے میں ناروے کی وزیرخارجہ اینہ میری ایکسن نے یوم ارض کے موقع پرہونے والے مظاہروں کے نہتھے مظاہرین پر صیہونی فوجیوں کی فائرنگ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے صیہونیوں کے رویے کو ناقابل قبول قرار دیا- برطانیہ کی لیبرپارٹی کے رہنما جرمی کوربین فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوجیوں کی یلغار کوحیرت انگیز اور امریکہ کے سینئر سینیٹر برنی سنڈرز نے اسے ٹریجڈی قرار دیا-
اس کے باوجود کہ بعض مغربی رہنما کھل کر صیہونی حکومت کے اقدام کے جنگی جرم ہونے پر تاکید کررہے ہیں ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کہ جس نے کویت کی درخواست پرہنگامی اجلاس طلب کیا تھا ، اسرائیلی جرائم کی مذمت میں بیان تک جاری نہیں کیا- امریکی مندوب کے باربا اعتراض کے باعث فلسطینی شہریوں کے خلاف صیہونی حکومت کے مظالم و جرائم پر مذمتی بیان جاری نہیں ہوسکا- اگرچہ عرب لیگ صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف اجلاس طلب کرنے والی ہے تاہم اس یونین کا ڈھانچہ اور حالیہ عشروں اوربرسوں میں اس یونین کی کارکردگی سے پتہ چلتا ہے کہ اس اجلاس میں بھی صرف ایک کمزور موقف اختیار کیا جائے گا جس کا فلسطینی عوام کے دفاع میں کوئی اثرنہیں ہوگا-
فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کےجرائم کے سلسلے میں سلامتی کونسل اور عرب لیگ جیسے اہم اداروں کا ناکارہ پن اور عرب و مغربی سیاسی شخصیتوں کا قدرے منطقی ردعمل اس بات کا عکاس ہے کہ علاقائی و بین الاقوامی اداروں کو اپنی ساکھ بچانے کے لئے اپنی تشکیل نو کرنا چاہئے-