Apr ۰۷, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۹ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدے کے خلاف امریکی نمائندہ کی زہر افشانی

اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے ایک بار پھر ایٹمی معاہدے کو برا معاہدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے کو قبول یا اسے مسترد کردے۔

اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نکی ہیلی نے ڈیوک یونیورسٹی میں ایک تقریر میں اس بات پر فخر کرتے ہوئے کہ امریکی حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں ایٹمی معاہدہے کو چیلنج سے دوچار کردیا ہے کہا کہ ہم اس وقت یورپی اتحادیوں کے ساتھ ، ایٹمی معاہدے میں اصلاح اور ان کے بقول علاقے میں ایران کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت کے موضوع پر بات چیت کر رہے ہیں۔ نکی ہیلی نے کہا کہ یورپی ممالک اس معاہدے پر باقی رہ سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی دھمکی دی کہ امریکہ ایران کے خلاف پابندیاں دوبارہ عائد کردے گا۔ 

نکی ہیلی نے ان خیالات کا اظہار ایسی حالت میں کیا ہے کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی اور جاپان کی وزیر خارجہ تارو کانو نے جمعے کو ٹیلیفونی گفتگو میں ایران کے ایٹمی معاہدے کے تمام فریقوں کی جانب سے اپنے وعدوں پر قائم رہنے اور اس پرعملدرآمد کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔ فریقین نےجوہری معاہدے کی حمایت اور اس کے مکمل نفاذ پر زور دیا ہے۔ فیڈریکا موگرینی نے جوہری معاہدے سے متعلق جاپان کی تکنیکی خدمات پر شکریہ ادا کیا ہے-

یورپی یونین نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کا خاتمہ تمام فریقوں کے نقصان میں ہوگا اور اس سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔ ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں کے موقف اور ٹرمپ کے موقف میں کافی فاصلہ پایا جاتا ہے۔ ماسکو اور بیجنگ بھی ایٹمی معاہدے پر نظر ثانی یا اس میں کسی قسم کی ترمیم کی کوششوں کے مخالف ہیں۔ 

ایٹمی معاہدے میں اصلاح کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقرر کردہ مہلت میں صرف پانچ ہفتے کا وقت باقی رہ گیا ہے۔ ٹرمپ نے گذشتہ بارہ جنوری کو دھمکی دی تھی کہ اگر ایٹمی معاہدے میں بارہ مئی تک اصلاح نہ کی گئی تو امریکہ اس معاہدے سے نکل جائے گا۔ 

امریکی ڈموکریٹ سینیٹر کریس مورفی نے، ڈونلڈ ٹرمپ کے توسط سے فاکس نیوز کے ساتھ گفتگو میں ایران مخالف ہرزہ سرائیوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایران اس وقت ایٹمی معاہدے کی پابندی کر رہا ہے اور اس معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کا امکان نہیں ہے۔ ایران، ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے وقت سے ہی قابل اعتماد فریق رہا ہے اور جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کی دس رپورٹوں میں بھی ایران کی جانب سے معاہدے پر مکمل طور پر عملدرآمد کی تائید و تصدیق کی گئی ہے۔

ایسے حالات میں امریکہ ایٹمی معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرکے، بہت نقصان اٹھائے گا۔ اسی سبب سے ٹرمپ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک وقت کی تلاش میں اور ممکنہ طور پر دیگر فریقوں سے مراعات حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ 

اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ کے اظہار خیال سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ واشنگٹن کو اس سلسلے میں دوبنیادی مشکل کا سامنا ہے۔

اول یہ کہ امریکہ کی غیرمنطقی پالیسیوں کا ساتھ دینے والا کوئی ملک نہیں ہے اور وہ عالمی سطح پر الگا تھلگ ہوگیا ہے اور دوسرے یہ کہ امریکہ کے مخاصمانہ اقدام کے جواب میں ایران بھرپور صلاحیتوں کا حامل ہے اور وہ امریکی دھمکیوں کے مقابلے میں دبنے والا نہیں ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر حسین کاشانی کہتے ہیں کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے باوجود ان کا ملک بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد کا پابند ہے۔ 

مشترکہ جامع ایکشن پلان ایک ایسی دستاویز ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے طور پرعالمی برادری نے اس کی تائید و تصدیق کی ہے- اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے سے نکلنے میں پہل نہیں کرے گا لیکن اس صورت میں کہ ایٹمی معاہدے میں ایران کے حقوق اور مفادات کی رعایت نہ کی گئی تو ایران بھی اپنی پہلی والی حالت پر واپس لوٹ جائے گا۔

چودہ جولائی دوہزار پندرہ کو کئی برسوں کی سعی و کوشش کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں جاری اختلافات کو ختم کرنے کے لئے، ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان طویل اور تفصیلی مذاکرات انجام پائے تھے اور گروپ پانچ جمع ایک نے ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کئے تھے جس پر سولہ جنوری دوہزار سولہ سے عمل درآمد بھی شروع ہوا۔

اس کے باوجود ٹرمپ نے گذشتہ ایک سال کے دوران بین الاقوامی ذمہ داریوں اور معاہدوں پر عملدرآمد کے تعلق سے ناقابل اعتماد رویہ اپنایا ہے اور ایٹمی معاہدہ بھی شاید اس اصول سے مستثنی نہیں ہے۔   

ٹیگس