Apr ۰۹, ۲۰۱۸ ۱۷:۰۴ Asia/Tehran
  •  سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت کے خلاف فرانس میں مخالفت کی لہر

سعودی ولیعہد کے دورہ پیرس کے موقع پر، سعودی عرب کو ہتھیار فروخت نہ کرنے کے لئے فرانسیسی صدر سے مطالبات میں تیزی آئی ہے۔

محمد بن سلمان کے پیرس میں داخل ہونے کے ساتھ ہی فرانسیسی صدر امانوئل میکرون کے پارٹی ممبران پارلمینٹ نے جنگ یمن میں سعودی اتحاد کو ہتھیاروں کی فروخت کے قانونی ہونے کے بارے میں سرکاری طور پر تحقیق کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کے فرانس  پہنچنے کے موقع پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور انسانیت سے ہمدردی رکھنے والوں نے سعودی عرب کے ولیعہد کے خلاف عظیم مظاہرہ کیا ہے۔ مظاہرین نے یمن کا پرچم اٹھا رکھا تھا اور یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ جنگ اور مجرمانہ ہوائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے سعودی عرب کے بادشاہ، شاہ سلمان اور ولیعہد محمد بن سلمان کے خلاف نعرے بازی کی اور اس کے دورہ فرانس کی بھر پور مذمت کی ۔

اس سے قبل بھی بعض بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں منجملہ انٹرنیشنل انفارمیشن آرگنائزیشن فار اوپن ڈموکریسی اور مختلف ملکوں منجملہ اٹلی اور سوئیڈن کے سول اداروں نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو، ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔ امریکہ ، برطانیہ جرمنی، فرانس اور سوئیڈن ، سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو ہتھیار فروخت کرنے والے اہم ممالک ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ان میں سے بیشتر ممالک نام نہاد جنگ مخالف نعروں اور انسانی حقوق کی حمایت کے نعروں کے ساتھ ہی بین الاقوامی میدانوں میں سرگرم ہیں۔ 

سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت کے خلاف احتجاج میں ایسے میں شدت آئی ہے کہ سعودی حکومت اور اس کے اتحادیوں نے ، امریکہ اور مغرب کی حمایت سے، مارچ 2015 سے یمن کے خلاف تباہ کن جنگ کا آغاز کر رکھا ہے کہ جس کے نتیجے میں اب تک چودہ ہزار سے زائد یمنی شہری شہید اور اس ملک کے دسیوں ہزار افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ ان تباہ کن حملوں کے نتیجے میں یمن کی اسّی فیصد بنیادی تنصیبات تباہ ہوچکی ہیں اور دوا اور غذا کی شدید قلت کے باعث وبا جیسی بیماری پھیل گئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطی ریسرچ ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق سعودی قیادت والے اتحاد کو ہتھیاروں کی غیر ذمہ دارانہ فروخت ، یمن کے مظلوم عوام کو بہت زیادہ نقصان پہنچنے کا باعث بنی ہے۔ 

نہ صرف یمن میں جنگ بلکہ داعش دہشت گرد گروہ کو ہتھیار فراہم کرنا بھی سعودی عرب کے ذریعے فوجی ہتھیاروں کی خریداری کے اہداف میں شامل ہے۔ ہتھیاروں کی تحقیقات کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق داعش دہشتگرد گروہ کے زیادہ تر ہتھیار، امریکہ اور سعودی عرب کے ذریعے اس گروہ کو فراہم کئے گئے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کچھ عرصہ قبل امریکہ اور سعودی عرب کی طرف سے داعش دہشت گردوں کی بھر پور حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اور سعودی عرب نے آشکارا طور پر داعش دہشت گردوں کو تربیت دی اور ہتھیار فراہم کئے جبکہ ایران نے عراق اور شام کے عوام کی مشکل وقت میں مدد کی ۔ 

عالمی سطح پر احتجاجات اور اعتراضات کے باوجود سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے توسط سے ہتھیاروں کی خریداری کا سلسلہ جاری ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی بھی ملکی اورغیر ملکی اعتراضات اور احتجاجات پر توجہ کئے بغیر ان ملکوں کو ہتھیار فروخت کر رہے ہیں۔ سیاسی ماہر سرگئی سیبری بف  Sergey Syberibov  کے بقول امریکہ اور برطانیہ یمن کی جنگ سے بھاری فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

 یورپ اور امریکہ میں احتجاج کے باوجود ایسا نہیں سمجھا جاتا کہ ان ملکوں کی پالیسیوں اور خرید و فروخت کرنے والوں کے مواقف میں کوئی تبدیلی آئے گی کیوں کہ اس جنگ افروزی سے  ہتھیاروں کی فروخت کرنے والوں کے اقتصادی مفادات اور علاقے میں ان کی موجودگی کو تقویت مل رہی ہے۔  دوسری جانب سعودی عرب کی ثروتمند لابی بھی مسلسل تبادلۂ خیال کر رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ یورپ اور امریکہ سے ہتھیار خرید سکے۔ ایسے حالات میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو ہتھیاروں کی فروخت کے خلاف احتجاج میں اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ عالمی رائے عامہ اس صورتحال سے راضی نہیں ہے اور اگر رائے عامہ کے احتجاج سے بے توجہی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یقینا احتجاج میں مزید شدت آئے گی اور ہتھیاروں کی خرید و فروخت کرنے والے ممالک پر دباؤ بڑھے گا۔       

ٹیگس