امریکہ کو جواد ظریف کا انتباہ
ایران کے وزیرخارجہ نے ایٹمی سمجھوتے اور اس معاہدے سے امریکہ کے ممکنہ طور پر باہر نکلنے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران، یقینا اپنے مفادات کی بنیاد پر عمل کرے گا اور اس کے پاس ایٹمی سمجھوتے کے اندر اور اس سے باہر بہت سے آپشن موجود ہیں۔
محمد جواد ظریف نے جمعرات کی شب نیویارک میں داخل ہوتے ہی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے نکلتے ہی جو اقدام اسلامی جمہوریہ ایران کرے گا اور عالمی برادری امریکی اقدام پر جو ردعمل ظاہر کرے گی وہ امریکیوں کے لئے ناگوارہوگا-
ایٹمی سمجھوتے کی تصدیق یا اس سے باہر نکلنے کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کی حکومت کے فیصلے کا وقت قریب آنے کے ساتھ ہی اس سمجھوتے سے امریکہ کے ممکنہ طور پر نکلنے اور اس کے نتائج کے بارے میں انتباہات تیز ہو گئے ہیں- ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایٹمی سمجھوتے میں شامل تین یورپی ملک اس سمجھوتے کی اصلاح نہیں کریں گے تو وہ بارہ مئی دوہزاراٹھارہ کو ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکل جائے گا- امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ باب کورکر نے بھی چند روز پہلے کہا کہ اگر ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی سمجھوتے میں اہم تبدیلیاں نہ کی گئیں تو ٹرمپ اس سے باہر نکل جائیں گے-
وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد سے ہی ٹرمپ کے انتباہات اور ایٹمی سمجھوتے کی باربار خلاف ورزیاں جاری ہیں اور اس کے نتیجے میں ایران کے ساتھ ہونے والے بین الاقوامی سمجھوتے کو نقصان پہنچ رہا ہے؛ ایک ایسا سمجھوتہ کہ جسے سلامتی کونسل کی توثیق بھی حاصل ہے- امریکہ نے ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں اپنے بہت سے معاہدوں پرعمل نہیں کیا ہے اور ایران کے ساتھ تجارت میں رکاوٹ ڈال کر ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے- اس سلسلے میں ایران کے سابق سفارتکار حسین موسویان کا خیال ہے کہ امریکہ کا اپنے معاہدوں پرعمل نہ کرنا ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان سمجھوتے کے مخدوش ہونے کا ثبوت ہے-
ٹرمپ کی دھمکیاں بڑھنے کے ساتھ ہی برطانیہ ، فرانس اور جرمنی بھی کہ جو ایٹمی سمجھوتے میں شامل ہیں، کسی بھی طرح ٹرمپ کو ایٹمی سمجھوتے میں شامل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اسی بنا پر یہ تینوں ممالک اپنی اعلامیہ پالیسی میں ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ پرتاکید کرتے ہیں تاہم عملی سیاست میں ایسے راستے پر چل رہے ہیں جو ٹرمپ کا ہے- ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کی یورپ کی کوششوں کا اسی تناظر میں جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ جو ایران کے علاقائی کردار اور اس کے میزائلی پروگرام پرعائد کی جائیں گی اور اس سے امریکہ و یورپ کے درمیان تقسیم کار کا پتہ چلتا ہے- ٹرمپ ایٹمی سمجھوتے کو بزعم خود ایک وحشتناک سمجھوتہ کہتے رہے ہیں اور انھوں نے اعلان کیا ہے کہ اس سمجھوتے میں کچھ نقائص ہیں اور اس میں میزائلی پروگرام اور ایران کے علاقائی کردار کو شامل نہیں کیا گیا ہے-
اسی تناظر میں بین الاقوامی امور میں رہبرانقلاب اسلامی کے مشیر ڈاکٹرعلی اکبرولایتی نے جمعمرات کو تہران میں ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں امریکیوں و یورپیوں کے موقف کے بارے میں کہا کہ امریکہ و یورپ سمجھتے ہیں کہ وہ ایٹمی سمجھوتے کے ذریعے ایران پر دباؤ ڈال سکتے ہیں، گویا انھوں نے اپنے کام کو تقسیم کرلیا ہے، امریکہ نے ایران کی علاقائی موجودگی کے خلاف اور فرانس ایران کے میزائلی پروگرام کے خلاف کام کررہا ہے اور برطانیہ ، اس تقسیم کار میں آگے آگے ہے-
ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں امریکہ و یورپ کے موجودہ رویے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں تاہم ایک مشترکہ ہدف رکھتے ہیں اور وہ ایران پر دباؤ کو بڑھانا، علاقائی سطح پراسے اور اس کی دفاعی و میزائلی طاقت کو کنٹرول کرنا ہے-
اسلامی جمہوریہ ایران ہرمیدان میں ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے امریکہ اور یورپ سے الگ ہو کرعمل کرتا ہے اور ان کے موقف و پالیسیوں کا تابع نہیں ہے-
ایران کا علاقائی کردار، بیرونی طاقتوں کے اہداف کے عملی جامہ پہننے میں حائل ہے۔ ایران علاقائی امن و سیکورٹی کے لئے کام کررہا ہے- ایران کا میزائلی پروگرام بھی پوری طرح دفاعی نوعیت کا ہے اور آٹھ سالہ مقدس دفاع کے تجربے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دفاعی میدان میں خودمختاری کے ساتھ کام کرنا چاہئے - اس واضح رویے کے پیش نظر یہ طے ہے کہ اگر امریکہ اور یورپ نے علاقے میں ایران کی موثرموجودگی اور اس کے میزائلی پروگرام کے خلاف ایٹمی سمجھوتے کو استعمال کرتے ہوئے کوئی مشترکہ اقدام کیا تو تہران اس کا منھ توڑ جواب دے گا-