اسلامی جمہوریہ ایران کی نظر میں پائدار امن کے اصول
ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف پائدار امن کے زیرعنوان منعقدہ اجلاس میں شرکت کی غرض سے نیویارک کے دورے پر ہیں - یہ اجلاس عالمی امن و صلح کے بارے میں اپنے نظریات، بیان کرنے کے لئے مناسب موقع ہے-
علاقے اور دنیا کے موجودہ حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ پائدار امن کے لئے ایسی روش کی ضرورت ہے کہ جس کے ذریعے تنازعات کی بنیادی وجوہات کا جائزہ لیا جائے اور اقوام متحدہ کے تین بنیادی اصولوں یعنی امن و سیکورٹی، ترقی اور انسانی حقوق کوعملی جامہ پہنایاجائے- اس کے باوجود بھی ہمیشہ یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ آخر دنیا کے مختلف علاقوں میں بحرانوں کے جاری رہنے اور امن و صلح کے ناپائدار رہنے کی وجہ اقوام متحدہ کے منشور میں درج اہداف و اصولوں کی خلاف ورزی ہے یا ان چیلنجوں کا سبب سامراجی طاقتوں کی توسیع پسندیوں اور زیادہ طلبیوں میں تلاش کیا جائے- تقریبا تین سو سال پہلے جرمن فلسفی ایمانوئل کانٹ نے اپنی کتاب میں پائدارامن کے لئے کچھ شرطیں پیش کی تھیں کہ جن میں طاقت کے استعمال اور دوسرے ممالک کے امور میں مداخلت پسندی بھی شامل تھی-
موجودہ دور میں بھی عالمی بحران اور کشیدگی کی بڑی وجہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جنگ افروزانہ پالیسیاں ہیں- افغانستان و عراق پر قبضہ اور بیت المقدس کی غاصب حکومت کی بلاقید و شرط حمایت، ان جنگ پسندانہ پالیسیوں کا ایک حصہ ہے-
نصف صدی سے زیادہ سے فلسطین پر اسرائیل کاغاصبانہ قبضہ جاری ہے اور پچاس لاکھ سے زیادہ فلسطینی دربدر اور جلاوطن ہیں جبکہ غزہ میں فلسطینیوں کا محاصرہ اور قتل عام بھی جاری ہے اور یہی علاقے میں پائدارامن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے-
عصرحاضر کے ایک ماہر سماجیات گاسٹن بوٹول نے امن و جنگ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن ، ایک انسانی گروہ کی سرنوشت اپنے ہاتھ میں ہونے کا نام ہے- دوسرے لفظوں میں سیاسی لحاظ سے خودمختاری کا نام امن ہے- ترک اسلحہ سے متعلق معاہدوں پرعمل درآمد نہ ہونا اورعام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے وجود سے پیدا ہونے والے خطرات کو مٹانے کے لئے عالمی کوششوں کا ناکام ہونا، عالمی امن و سیکورٹی کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے- دہشتگردی بھی عالمی امن و سیکورٹی کے لئے سب سے سنگین خطرہ شمار ہوتی ہے جبکہ حالیہ برسوں کے تلخ تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ علاقے کی بعض حکومتوں نے دہشتگردی کو اپنے اہداف کے حصول کا ذریعہ بنا رکھا ہے-
اسلام جمہوریہ ایران ، انسانی اقدار اور دین اسلام کے اصولوں کی بنیاد پر، انسانی معاشرے میں تنازعہ اور جنگ کی جڑ، توسیع پسندی، سامراجیت ، جارحیت اور ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی کو سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ پائدار امن و صلح کا قیام ، قوموں کے حقوق کی پامالی، تشدد و منھ زوری سے پرہیز اور بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی کا مرہون منت ہے-
تشدد اور انتہاپسندی کے خلاف دنیا کی تجویز کہ جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اڑسٹھویں اجلاس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹرحسن روحانی نے دی تھی اور جسے جنرل اسمبلی نے منظوری دی تھی اور خیرمقدم بھی کیا تھا ، اسی موقف و نظریے کی نشانی ہے-