یمن میں آل سعود کی دہشتگردانہ پالیسیوں کے نتائج
یمن کے وزیردفاع اور اس ملک کی مسلح افواج کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے سربراہ صالح الصماد کے قتل کا مناسب اور منھ توڑ جواب دیا جائے گا اور بے چین مجرموں کا خواب چکناچور کردیا جائے گا-
صالح الصماد کے ساتھ ان کے چند ساتھیوں کا قتل اور گذشتہ چند دنوں کے دوران سیکڑوں نہتھے یمنیوں کوخاک و خون میں غلطاں کرنا نیز سعودی عرب کی جانب سے یمن کا محاصرہ تنگ کرنے سے ثابت ہوگیا ہے کہ جنگ زدہ ملک یمن بدستور آل سعود خاص طور سے محمد بن سلمان کہ جس نے یمن کے خلاف جنگ کی سازش رچی ہے ، کی شرارتوں کا مرکزبنا ہوا ہے-
سعودی عرب امریکہ اور چند عرب ممالک مارچ دوہزارپندرہ سے یمن کے مستعفی و مفرور صدرمنصورہادی کو اقتدارمیں واپس لانے کے بہانے اس ملک پر حملہ کررہے ہیں تاہم اس ملک پر وحشیانہ فضائی حملوں اور ہمہ گیر محاصرے کے باوجود اپنا کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کرسکے ہیں-
آل سعود کہ جو یمن کے خلاف جنگ مسلط کرنے کے باوجود اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہی ہے، اپنے جرائم کو تیز کردیا ہے تاکہ کسی طرح اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال سکے اور یمن کے عوام کی استقامت کو کمزور اور ختم کرنے کی زمین ہموار کرے- آل سعود کے یمن کے استقامتی رہنماؤں کے قتل کے اقدام نے اس حکومت کی دہشتگردانہ ماہیت پہلے سے زیادہ نمایاں کردی ہے کہ جو علاقائی و عالمی سطح پر تکفیری و دہشتگرد گروہوں کا سرچشمہ ہے- یمن کی استقامت کے خلاف آل سعود کے دہشتگردانہ اقدامات فلسطینی استقامتی رہنماؤں کے قتل کے سلسلے میں اسرائیل کے دہشتگردانہ اقدامات کی یاد دلاتے ہیں کہ جو علاقے میں استقامتی رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی پشت پر بڑے پیمانے پرایک طرح کے تعاون کو نمایاں کرتا ہے- قابل غور نکتہ آل سعود کا دہشتگردانہ اقدامات انجام دینے میں صیہونی حکومت کی نقل کرنا ہے کہ جو ناکام و شریرآل سعود اور صیہونی حکومت کے درمیان گہرے تعاون کا عکاس ہے-
ابھی چند دنوں پہلے المیادین ٹی وی چینل نے رپورٹ دی کہ ریاض حکومت علاقائی مسئلے میں اپنی ناکامی کے بعد صیہونی حکومت کی جانب بڑھ رہی ہے تاکہ استقامت کو نقصان پہنچانے کے لئے اسرائیل کے ساتھ متحد ہوجائے لیکن یہ اقدام علاقے میں سعودیوں کی مسلسل ناکامیوں کا سلسلہ ختم نہیں کر پائے گا- المیادین ٹی وی کے رپورٹر علی مرتضی نے اسرائیل سے قریب ہونے کے لئے سعودی عرب کی کوششوں کے بارے میں کہا کہ علاقے میں سعودی عرب کی پالیسیاں ہی ریاض حکام کے ذہن میں یہ انحراف پیدا ہونے کے عامل ہیں اور اسی بنا پر انھوں نے اسرائیلیوں کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھائے ہیں- اگر ملک سلمان سے پہلے کے زمانے کو دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ سعودی عرب نے شام کے خلاف وسیع حملے میں شرکت کی تاہم شام کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ ناکام ہوگیا اور سعودیوں کا قطب نما شام سے یمن کی طرف گھوم گیا یہاں تک کہ ملک سلمان نے اپنی حکومت کا آغاز یمن پر حملے سے کیا یعنی ایک ایسی جنگ سے کہ جس کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے اور اس کا خود سعودی عرب پربھی منفی اثر پڑا ہے اور اس کا دارالحکومت یمن کے بیلسٹیک میزائلوں کے نشانے پر آگیا- آل سعود نے یمن میں اپنے دہشتگردانہ اقدامات شروع کرنے کے ساتھ ہی اس ملک کے عوام کے خلاف نفسیاتی جنگ چھیڑ دی جس کا مقصد صالح الصماد کے قتل کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کرکے استقامتی محاذ کے درمیان تفرقہ ڈالنا ہے تاکہ رائے عامہ کی توجہ آل سعود کے جرائم سے موڑی جا سکے- لیکن سعودی عرب کی فتنہ انگیزی اور دہشتگردانہ پالیسیوں کی بابت یمنی عوام اور حکام کے ٹھوس اقدامات اور ہوشیاری ، جنگ یمن میں آل سعود کے نئے اقدامات کی ناکامی اور سعودی عرب کے پہلے سے زیادہ دلدل میں دھنستے جانے کا پتہ دیتی ہے-