شام کی سرزمین سے دہشت گردوں کے انخلاء پر ترکی کی تاکید
ترکی کی حکومت نے دہشت گرد گروہوں منجملہ داعش گروہ کو جو شام کی ارضی سالمیت اور ترکی کی قومی سلامتی کے لئےخطرہ ہیں، سرزمین شام سے نکالے جانے پر تاکید کی ہے-
ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو نے ماسکو میں ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں آستانہ عمل کو شام کے بحران کے حل کیلئے واحد اور کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران، ترکی اور روس آستانہ عمل کے تناظر میں سہ فریقی تعاون کر رہے ہیں۔
چاووش اوغلو نے شام کے بحران کے بارے میں تبادلۂ خیال میں وسعت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کی حمایت والے دہشت گرد گروہوں کو شام سے نکل جانا چاہئے کیوں کہ یہ گروہ علاقے کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں-
اس سے قبل انقرہ کے حکام منجملہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے دعوی کیا تھا کہ شام کی اراضی پر ترکی کا فوجی اقدام قبضے کے لئے نہیں تھا بلکہ دہشت گردوں کی نابودی کے لئے تھا-
اس قسم کے خیالات کا اظہارایسے میں کیا جا رہا ہے کہ ترکی کی حکومت کا شمار بھی شام کی سرزمین پر داعش اور جبھۃ النصرہ جیسے دہشت گرد گروہوں کے اصلی حامیوں میں ہوتا ہے۔ باجودیکہ ان دہشت گرد گروہوں نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے تاہم انقرہ کی حکومت بدستور اچھے اور برے دہشت گرد کی قائل ہے اور ان دہشت گردوں کو اپنے مخالف اور موافق دستوں میں تقسیم کرکے دیگر ملکوں کے قومی مفادات کو اپنے قومی مفادات کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش میں ہے- علاقے میں بعض باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ انقرہ کی حکومت، کردوں کے مخالف دہشت گرد گروہ ، ان کو تاراج اور تباہ و برباد کرنے کے لئے علاقے میں باقی رہیں اور ترکی کے مفادات میں کاروائیاں انجام دیں-
انقرہ حکومت نے گذشتہ چند سال کے دوران جو بیانات دیئے اور مواقف اختیار کئے ہیں ان کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ مغرب کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں سے ترک حکام کی حقیقی مراد ، ترکی اور شام کے کرد ہیں- درحقیقت انقرہ کے حکام کا خیال ہے کہ امریکہ کے حمایت یافتہ شامی کردستان کی ڈیموکریٹک یونین پارٹی (PYD) کے مسلح ونگ عوامی تحفظ یونٹس (YPG) اور کردستان ورکرز پارٹی PPK ، کو داعش دہشت گردوں کی طرح شام سے نکل جانا چاہئے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ترکی کے شہر عفرین پر مکمل قبضے کے بعد شام کی وزارت خارجہ نے متعدد بیانات میں اعلان تھا کیا کہ ترکی کی افواج کے ذریعے عفرین پر قبضہ ایک غیر قانونی اقدام ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کے منافی ہے۔
شام کے قانونی صدر بشار اسد نے بھی رواں سال اٹھارہ مارچ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نام ارسال کردہ دو مراسلوں میں کہا ہے کہ عفرین پر حملے کے دو مہینے کے بعد ترکی کی حملہ آور فوج نے اس علاقے پر قبضہ کرلیا ہے اور اس غیر قانونی اقدام کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ عفرین کے ہزاروں افراد قتل اور زخمی ہوئے ہیں اور دسیوں ہزار افراد بے گھر ہوگئےہیں-
اس سے قبل بھی دمشق حکومت نے بارہا شام کی سرزمین پر ترک فوج کی کاروائیوں کو ایک غاصبانہ اقدام اور اس ملک کےاقتدار اعلی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے - بین الاقوامی اداروں اور بہت سی غیر جانبدار حکومتوں نے بھی بارہا ، شام کی سرزمین پر ترک فوج کی موجودگی کی مذمت کی ہے اور شام میں ترک فوج کی کاروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے-